قیام کے باعث آج کل کے ظالم حکمرانوں کے لئے جو اس سمت قدم اٹھائیں نتائج کے اعتبار سے مکمل کامیابی حاصل کرلینا بہت زیادہ دشوار ہوگیا ہے۔
ہٹلر کے ہم عصر مصطفیٰ کمال اتاترک نے ایک زیادہ موزوں طریقہ اختیار کیا، ترکی ڈکٹیٹر کا مقصد اپنے ہم وطنوں کے ذہن کو ایرانی تمدنی ماحول سے رہا کرکے جوان کو ورثہ میں ملا تھا زبردستی مغربی تمدن کے سانچہ میں ڈھالنا تھا، اور انہوں نے کتابیں سوخت کرنے کے بجائے حروف تہجی کو بدل ڈالنے پر قناعت کرلی، اس قانون کے نفاذ کے بعد ترکی غازی کے لئے چینی شہنشاہ یا عرب خلیفہ کی نقل کرنا غیر ضروری ہوگیا تھا، فارسی، عربی اور ترکی لٹریچر کے کلاسیکی ذخائر اب نئی نسلوں کی دسترس کے باہر ہوگئے تھے، اب کتابوں کے جلانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی تھی کیونکہ وہ حروف تہجی جو کہ ان کی کنجی کی حیثیت رکھتے تھے، وہی منسوخ کردئیے گئے تھے، اب یہ ذخائر اطمینان کے ساتھ الماریوں میں بند پڑے رہ سکتے تھے، علاوہ چند سن رسیدہ علماء کے ان کو ہاتھ لگانے والا اب کوئی نہ تھا۔‘‘ ۱
اتاترک نے ترکی زندگی سے اسلامی اور عربی عنصر کو دور کردینے میں حیرت انگیز وبے نظیر کامیابی حاصل کی، ترکوں کے علاوہ اگر کوئی دوسری قوم ہوتی تو اس کا رشتہ اسلام سے اور اپنے ماضی سے ہمیشہ کے لئے کٹ چکا ہوتا اور اسلامی دنیا میں ایک دوسرے اسپین کا تجربہ ہوتا لیکن ترک قوم موروثی و نسلی طور پر اسلام کی ایسی وفادار ہے، اسلام کے ساتھ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم، دین حجازی اور اور اس کے مرکز اور اس کی ملت کے ساتھ اس کو ایسا جذباتی، روحانی اور قلبی لگاؤ ہے، اسلام کے ساتھ اس کے تعلق کی بنیاد ایسے مخلص ہاتھوں سے اور ایسی مبارک گھڑی میں رکھی گئی کہ ترک مجموعی اور ملی طور پر ابھی تک اسلام سے وابستہ ہیں، ایک سیاح کو ان کے اندر محبت کی جو حرارت، ایمان کی جو طاقت اور اسلام کے لئے جو گرم جوشی محسوس ہوتی ہے، وہ کم مسلمان قوموں میں نظر آتی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ کمال اتاترک
------------------------------
۱۔ P. 518, 519