تھا، اور جس طرح وہ اس کے اعصاب و جذبات پر مستولی تھی، اس کا ذکر کرتے ہوئے مصنف مذکور لکھتا ہے
’’بڑی حدتک مصطفیٰ کمال جس چیز کی تلقین کرتا تھا، اس پر وہ خود بھی عامل تھا، وہ اس نئے خدا (تہذیب جدید) کا پرجوش پجاری اور اس کا ایک وفادار حواری تھا، اس نے اس لفظ ’’تہذیب‘‘ کو ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلادیا، جب وہ اس تہذیب کے متعلق کوئی گفتگو کرتا تو اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوجاتی تھی اور اس کے چہرے پر ایسی کیفیت نمودار ہوتی تھی، جو کسی صوفی کے مراقبۂ جنت کے وقت اس کے چہرے پر نظر آتی ہے۔‘‘ ۱
تہذیب سے متعلق اس کا تخیل کیا تھا، اور وہ ترکی قوم کو کیا دیکھنا چاہتا تھا؟ اس کا اندازہ حسبِ ذیل بیانات سے ہوگا، مصنف لکھتا ہے:۔
’’مصطفیٰ کمال اپنی قوم سے کہتا تھا، ہم کو ایک مہذب و شائستہ قوم کا سا لباس پہننا چاہیے ہم کو دنیا کو دکھانا چاہیے کہ ہم ایک بڑی قوم ہیں ہم کو دوسری قوم کے ناواقف لوگوں کو اپنے پرانے فیشن کے لباس پر ہنسنے کا موقع نہ دینا چاہیے ہم کو زمانہ کے ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔‘‘ ۲
’’اس کے بعد ذہن میں ایک اصلاح شدہ نئے سانچے میں ڈھلے ہوئے ترکی کا تخیل تھا لیکن اس کے حصہ میں جو انسانی کچا مال (قوم) آئی تھی وہ ایک بیزار اداس اور ایک اَن گڑھ انسانی مجموعہ تھا، جیسے جنگ کے دوران میں فوج میں بھرتی ہونے والے نئے رنگروٹ ہوتے ہیں، اس نے ایک ایسے آدمی کی حیثیت سے تنہا کام کرنا شروع کیا جو طاقت کا سرچشمہ تھا جس کو اپنے سوا کسی کے فیصلہ پر اعتماد نہیں تھا، جس کو دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرنے کا خبط تھا، اور جس کے اندر افراط کے ساتھ ذہنی طاقت بھری ہوئی تھی۔‘‘۳
ترکی قوم کو جلد سے جلد مغربی اقوام کے رنگ میں رنگ دینے اور مکمل طور پر ان کا ایسا ہم رنگ
------------------------------
۱۔ IBID P. 273
۲۔ IBID P.260
۳۔ IBID P. 244