بنادینے کے لئے جس کے بعد کوئی امتیاز نہ رہے۔
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
اس نے ترکی ٹوپی اور سر کے ہر لباس کو خلافِ قانون قرار دیا اور ہیٹ کا استعمال لازمی کردیا اور اس بارے میں اتنی شدت برتی کہ گویا اس سے بڑھ کر کوئی اصلاح اور ترکی قوم کی زندگی اور عزت کے لئے کوئی شرط نہ تھی، یہ ہیٹ کی وہ خوں ریز جنگ تھی جس نے جنگ صلیبی کی شکل اختیار کرلی، ترک سوانح نگار اس معرکہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:۔
’’فسادات اور بلوے اس قدر سخت تھے، اور صورت حال اتنی خطرناک ہوگئی کہ ایک کروزر کو بحرِ اسود کے ساحل پر ہر وقت چوکنا رہنے کی ہدایت ہوئی، ملک میں جابجا عدالتیں قائم ہوئیں اور انہوں نے اپنا کام شروع کیا، ان باتوں نے بلوائیوں کو اور زیادہ مشتعل کردیا، مذہبی حلقہ کے افراد جنہوں نے لوگوں میں جوش پیدا کیا تھا یا تو پھانسی پر چڑھادئیے گئے یا روپوش ہونے پر مجبور ہوئے، کہیں رحم و رعایت سے کام نہیں لیا گیا، مصطفیٰ کمال نے منصوبے کی تکمیل کا فیصلہ کرلیا، اس کو اس کی پرواہ نہیں تھی کہ وہ اس کے لئے کیا ذرائع اور طریقے استعمال کررہا ہے، لوگ گرفتار کئے جاتے تھے، اور محض اس الزام میں کہ انہوں نے مذاق کیا ہے، پھانسی پر چڑھادئیے جاتے تھے، بےخطا اور مجرم دونوں یکساں اس کا نشانہ بنے اس نے نہ تو ان تحقیقاتی عدالتوں کو ان کی عاجلانہ کارروائی پر سرزنش کی اور نہ قوم کی مرضی کو شکست دینے میں تامل سے کام لیا، اس زمانہ میں وہ متکبرانہ طریقہ پر اکثر کہا کرتا تھا ’’میں ہی ترکی ہوں، مجھے شکست دینا ترکی کو شکست دینا ہے‘‘ اس خود پرستانہ جنون نے ان لوگوں کو بھی مشتعل کردیا جو اس کو ترکی کا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔
ہیٹ کی جنگ بالآخر جیت لی گئی، عدالتیں کامیاب ہوئیں اور عوام نے اپنی شکست تسلیم کرلی