ہم کو ہر پہلو سے مرد بننا ہے، ہم نے بڑی مصیبتیں اٹھائی ہیں، ہماری مصیبتوں کا سبب یہ تھا کہ ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ دنیا کس راستہ جارہی ہے، ہم کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ کوئی کیا کہتا ہے، ہم مہذب و شائستہ بن رہے ہیں اور ہم کو اس پر فخر کرنا چاہیے۔ عالم اسلام کے بسنے والے دوسرے مسلمانوں پر نظر ڈالو، وہ کس تباہی، مصیبت اور حوادث کا شکار ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ وہ اپنے دماغ سے کام لے کر اپنے کو اس روشن و بلند پایہ تہذیب میں فٹ نہیں کرسکے یہی سبب ہے کہ ہم بھی اتنے طویل عرصہ تک پسماندگی و تنزل کا شکار رہے، اور اب آخری گڑھے میں گرگئے، ان پچھلے برسوں میں اگر ہم اپنے کو بچانے میں کچھ کامیاب ہوئے ہیں تو وہ اس وجہ سے کہ ہماری ذہنیت تبدیل ہوگئی، مگر اب ہم کسی جگہ ٹھہر نہیں سکتے، ہم آگے بڑھنے کے لئے اٹھے ہیں اور ہم برابر آگے بڑھ رہے ہیں، خواہ کچھ بھی واقع ہو، اب ہمارے لئے کوئی دوسرا راستہ نہیں، قوم کو سمجھ لینا چاہیے کہ تہذیب ایک ایسی جلتی ہوئی آگ ہے، جو ان سب کو جلا اور خاک سیاہ کردیتی ہے، جو اس کو خراج عقیدت نہیں ادا کرتے۔‘‘۱
ایک دوسری جگہ اس کی نفرت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:۔
’’یہ کوئی راز کی بات نہیں تھی کہ مصطفیٰ کمال ایک غیر مذہبی آدمی تھا، اس بنا پر یہ افواہ گرم تھی کہ خلافت کی تنسیخ جلد عمل میں آنے والی ہے، اس بات سے اور سنسنی پھیل گئی کہ مصطفیٰ کمال نے شیخ الاسلام کے سر پر جو اسلام کے بڑے عالم اور ایک قابل احترام بزرگ تھے، قرآن مجید پھینک کر مارا، اس کا نتیجہ مصطفیٰ کمال کی فوری موت کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا تھا لیکن یہ واقعہ پیش نہیں آیا اور یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ زمانہ بہت بدل گیا ہے۔‘‘ ۲
مغربی تہذیب سے جو اس کو عشق و شیفتگی اور اس کی نظر میں اس کا جو تقدس اور احترام
------------------------------
۱۔ IBID P.237
۲۔ IBID P. 239