وسیع عثمانی سلطنت کی تعمیر کی تھی، اس کا خیال تھا کہ اسلام کی بدولت لوگ جمود و اوہام کی دلدل میں دھنسے رہے، اس کو اس آدمی سے نفرت تھی، جو تقدیر کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے، اور کہتا ہے کہ یہ ’’خدا کی مرضی تھی‘‘ یہ ’’مقدر کی بات ہے‘‘ اس کا عقیدہ تھا کہ خدا کا کہیں وجود نہیں، اور انسان ہی اپنی تقدیر بناتا ہے، وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ دماغ کی طاقت اور قوتِ ارادی خدا کی ’’بے حسی‘‘ اور ’’بے رحمی‘‘ پر غالب آجاتی ہے، لیکن مذہبی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں‘‘ وہ کہتا تھا ’’کیا ان مذہبی لوگوں کو ابھی تک برقی طاقت کی اطلاع نہیں جو بہت تیزی سے کام کرتی ہے؟‘‘ اس کا مصمم ارادہ تھا کہ مذہب کو ممنوع قرار دے دے خواہ اس کے لئے طاقت استعمال کرنی پڑے، خواہ دھوکہ اور فریب سے کام لینا پڑے‘‘۔ ۱
ایک دوسری جگہ لکھتا ہے:۔
’’اس کے نزدیک نفسیاتی اصول و نظریات اور فلسفیانہ اصطلاحات کے کوئی معنی نہیں تھے، اسی لئے قدرتی طور پر ترکی قوم کے لئے مذہب کو غیر ضروری اور بے کار قرار دینے میں اس کو کوئی تامل نہیں تھا لیکن مذہب کی جگہ پر اس نے اگر کوئی چیز ترکی قوم کو دی تو وہ ’’نیا دیوتا‘‘ تھا، یعنی مغربی تہذیب اس میں اچنبھے کی بات نہ تھی کہ قوم نے اپنی روح کے لئے جنگ کی، دوسری تہذیبوں کی گذشتہ تاریخ سے اس نے یہ سبق حاصل کیا تھا کہ پرانے دیوتا ذرا مشکل سے مرتے ہیں، (اس لئے خدا کا خیال ترکی قوم کے دل سے دیر ہی میں نکلے گا)‘‘۔۲
دوسری جگہ لکھتا ہے:۔
’’اسلام اور راسخ العقیدہ مذہبیت سے اس کو شدید نفرت تھی، جس خدا کا وہ قائل تھا، وہ اس کے نزدیک کسی قیدو بند کا محتاج نہ تھا، اس کے نزدیک وہ خدا ہر چیز میں تھا، وہ کہتا تھا کہ
------------------------------
۱۔ IBID. P. 237, 238
۲۔ IBID. P. 246