جوانی میں اس نے اپنے انقلابی افکار کے ساتھ ضیاء گوک الپ کی تعلیمات کو بھی اچھی طرح جذب کیا تھا، ضیاء گوک الپ نے روشن خیالی اور مذہبی خیالات کی آزادی کے لئے جنگ کی تھی، وہ مغربی روشن خیالی کا بہت بڑا نقیب تھا، اس نے ۱۹۰۰ء ہی میں اس خیال کا اظہار کردیا تھا کہ سلطنتِ عثمانیہ کے لئے زوال و انتشار مقدر ہوچکا ہے، اس لئے کہ اس نے شخصی حکومت کے اصول کو آنکھ بند کرکے پکڑ رکھا ہے، وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ ’’دینی حکومت، شخصی حکومت کی وفادار حلیف ہوتی ہے، اس نے مذہبی اقتدار سے آزادی حاصل کرنے کی پرزور حمایت کی تھی، وہ علماء کے اختیارات کو محدود کردینے کے حق میں تھا، مختلف مذہبی برادریاں اور مذہب کے پرجوش حامیوں کے حلقے جو (بقول اس کے) شیطان کے آلۂ کار بن کر جہاد کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں، مقید و پابند ہونے چاہئیں، اس نے شریعت کے خاتمہ اور ان قاضیوں کی دینی عدالتوں کی منسوخی کی پرزور وکالت کی تھی، جو اسلامی قانون کے شارح و ترجمان ہیں، اس کے نزدیک ان کی جگہ پر نئی قانونی عدالتوں اور سول کورٹس کو آنا چاہیے۔‘‘۱
مذہب اور بالخصوص اسلام کے بارے میں اس کے عقیدہ اور نقطۂ نظر اور اس کے اصلی خیالات واحساسات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:۔
’’اس نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اس کی اصلی جنگ مذہب کے خلاف ہے، بچپن سے اس کے نزدیک خدا کی کوئی ضرورت نہیں تھی، وہ محض ایک پراسرار اور مغالطہ آمیز مجرد نام تھا، جس میں کوئی حقیقت نہیں تھی، وہ صرف اس چیز پر یقین رکھتا تھا جو دیکھنے میں آسکتی تھی، ۲
اس کا خیال تھا کہ زمانہ ماضی میں اسلام محض ایک تخریبی طاقت رہا ہے، اور اس نے ترکی کو بہت نقصان پہنچایا ہے، اس نے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا تھا کہ اسلام ہی کی عطا کی ہوئی وحدت نے
------------------------------
۱۔ P. 246
۲۔ اس کتاب میں مصنف نے ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں کبھی کبھی کمال آسمان کی طرف مکا اٹھا کر اشارہ کرتا تھا۔