مستعار لینے کی خاطر ترک کردیا گیا، جبکہ تعلیم، حکومت، سائنس، معاشیات اور زراعت کے سلسلہ میں مغربی طریقوں اور اسلوبوں کو جاری نہیں کیا گیا۔
ترکی ریاست کو ایک جدید ریاست بنانے کی طفلانہ خواہش میں تنظیمات کے اصلاحات کے بانیوں نے بلاسبب یورپین طاقتوں کے احسانات، معاشی اور سیاسی معاملات میں قبول کرلئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست عثمانی اپنی آزادی اور سالمیت کھو بیٹھی، انہوں نے انتظامی معاملات میں جدید جمہوری نظاموں کا ایک بھی اصول رائج نہیں کیا، جبکہ نہ تو قدیم عثمانی سیاسی ادارے اور نہ اسلامی قانون میں کوئی بات ایسی تھی جو جمہوریت یا ترقی یا جدید سائنس سے ہم آہنگ نہ کی جاسکتی۔‘‘ ۱
لیکن باوجود نامق کمال کی عام مقبولیت اور اس گہرے اثر کے جو اس نے ترکی کی جدید نسل اور خود ضیاء گوک الپ اور ان کے معاصرین پر ڈالا اور جس کا اعتراف خالدہ ادیب خانم نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ ’’نامق کمال ترکی جدید کی محبوب ترین شخصیت تھی، ترکی کے افکار و سیاسیات کی تاریخ میں ان سے زیادہ کسی دوسری شخصیت کی پرستش نہیں کی گئی‘‘۲ اس کا متوازن فکر اور نسبتاً معتدل دعوت ترکی کی جدید تشکیل میں اتنی مؤثر ثابت نہیں ہوئی، جیسی ضیاء گوک الپ کی مغربی تہذیب اور اصولِ سیاست کے اختیار کرنے کی پرجوش دعوت، ضیاء کے فلسفہ اور فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ترکی کو ایک نہایت طاقتور اور عملی آدمی مل گیا، جس نے اس کے تصور اور منشا سے بھی آگے بڑھ کر ترکی کو مغربیت کے سانچہ میں ڈھالنے کا عزم کرلیا، یہ کمال اتاترک کی شخصیت تھی۔
------------------------------
۱۔ BERKES, NIYAZI: TURKISH NATIONALISM AND WESTERN CIVILIZATION (GOKALP, ZIYA) P. 17-18
۲. KHALIDE EDIB: TURKEY FACES WEST P. 84