فوجی تنظیم کا کام سپرد کر دیا، مصطفیٰ کمال کو یہ بات سخت ناپسند تھی، ۱۹۱۴ء میں جنگِ عظیم شروع ہوئی اور انور اور ان کے رفقاء کے دباؤ سے ترکی، جرمنی کے ساتھ باقاعدہ جنگِ عظیم میں شریک ہوگیا، کمال کی رائے تھی کہ ترکی کو غیرجانبدار رہنا چاہیے اور جس فریق کی فتح ہو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، کمال نے اپنی مرضی کے خلاف اس جنگ میں بہادرانہ حصہ لیا اور ۱۹۱۵ء میں گیلی پولی کے معرکہ میں زبردست کارنامہ انجام دیا اور اسی سے ان کی شہرت شروع ہوئی، ۱۹۱۶ء مٰیں وہ قفقاز کے محاذ پر بھیجے گئے، ۱۹۱۷ء کے آغاز میں ان کو حجاز کی کمان سپرد ہوئی، لیکن ان کے کمان سنبھالنے سے پہلے حجاز کا تخلیہ ہوچکا تھا، اس سال وہ جنرل کے عہدہ پر فائز ہو کر دیارِبکر قائم مقام کمانڈر بنا کر بھیجے گئے، ۱۹۱۸ء میں جرمنی اور ترکی کی شکست کے ساتھ یہ جنگ ختم ہوئی، سابق وزراء اور ترکی کے رہنما ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور کمال کے لئے میدان صاف ہوگیا، برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے استنبول پر قبضہ کرلیا، اناطولیہ میں بڑی بدامنی پھیل گئی، اس وقت امن قائم کرنے کے لئے مصطفیٰ کمال کا انتخاب ہوا، انہوں نے یونانیوں کے خلاف جنہوں نے ازمیر پر قبضہ کرلیا تھا، اعلانِ جنگ کردیا اور ۱۹۱۹ء میں سقاریہ کے معرکہ میں ان کو شکستِ فاش دی اور غازی کا لقب حاصل کیا، اس کے بعد انگورہ میں ایک آزاد حکومت قائم کی، خلافت اور عثمانی سلطنت کے خاتمہ کا اعلان کیا اور ایک غیر مذہبی جمہوریہ قائم کیا جس کے ۱۹۲۴ء میں وہ پہلے صدر منتخب ہوئے اور اسی حالت میں ۱۹۳۴ء میں انتقال کیا۔۱
کمال اتاترک کی قیادت میں ترکی نے نامذہبیت (سیکولرازم) اپنے ماضی سے انحراف بلکہ بغاوتِ شدید و جذباتی مغربیت اور عسکری آمریت کا جو رخ اختیار کیا، اس کے وجوہ و اسباب سمجھنے کے لئے اس تحریک و رجحان کے فکری و سیاسی قائد اور ترکی جدید کے معمارِ اعظم کمال اتاترک کے ذہنی ارتقاء، فکری نشوونما اور اس کی مزاجی کیفیت کے سمجھنے کی ضرورت ہے،
------------------------------
۱۔ ملاحظہ ہو: ATATURK (IRFAN ORGA) GREY WOLG (ARMSTRONG)