فارغ البالی اور فوقیت حاصل ہوئی ہوئی ہے، پرفیسر نیازی برکس ’’ مجموعۂ مضامین ضیاء گوک الپ ‘‘ کے فاضلانہ مقدمہ میں لکھتے ہیں:۔
’’جس شخص نے جدید صورت حال کی غیر صحت مندی کی تشخیص کی اور اس کو ایک جدید ریاست کے قیام کے راستے کی سب سے بڑی رُکاوٹ تسلیم کیا وہ نامق کمال ( ۱۸۴۰ء ۱۸۸۸ء ) تھے ، انھوں نے ان دینی، اَخلاقی اور قانونی اِداروں کی اصلی یا مثالی شکل پیش کرنے کی کوشش کی جو اِسلام سے منسوب کئے جاتے ہیں، اور قدیم عثمانی روایات کے عُروج کے زمانے کے سیاسی اِداروں کی بھی اصلی اور مثال شکلیں پیش کیں، اور مغربی تہذیب کے ان پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا، جن کی وجہ سے مغربی اَقوام کو ترقی، فارغ البالی اور فوقیت حاصل ہوئی تھی، ان تینوں عناصر پر بحث کرکے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان میں کوئی بنیادی اِختلافات نہ تھے، ان کے نزدیک اِسلام معاشرے کی اخلاقی اور قانونی بنیادیں فراہم کرتا ہے، ریاستی اُمور میں عثمانی روایت اور اس کی متعدد قومیتوں اور متعدد مذاہب کے درمیان رواداری کی آفاقی پالیسی کو عثمانی روایت (ترکی ریاست نہیں ) کے سیاسی ڈھانچے کی بنیاد بنایا جاتا اور مغربی تہذیب کے وہ مادی اور عملی طریقے اور اُسلوب سیکھے جاتے جس سے اس نظام کو طاقت اور معاشی ترقی کی ہم عصر دُنیا میں اِستحکام حاصل ہوتا ۔
اس طرح نامق کمال نے انیسوٰیں صدی کی ترکی کے تینوں عناصر کو الگ الگ کیا اور ان کے حدود کی نشان دہی کی، ان کے خیال میں تنظیمات کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب ان تینوں عناصر کے بارے میں ذہنی اِنتشار تھا، مثلاً شیعت یعنی اِسلامی قانون کو تو فرانس سے ضابطہ قانون
------------------------------
(باقی ص ۶۵ کا ) پیشہ بنا رکھا ہے ان کے مقابلے میں اس کے کارناموں کو نمایاں کیا، حتی کہ عثمانی قیادت میں بیان الاقوامی اِسلامی اتحاد کا بھی تصور پیش کیا، تاکہ اس تحریک کو ایشیا اور افریقہ میں اپناکر اور اس کی اشاعت کرکے یورپ کے مقابلے میں ایک مشرقی طاقتی توازن پیدا کیا جاسکے ۔ ‘‘ ( ص ۱۳۳ ص ۱۳۸ )