ملتی ہے، جنہوں نے مغرب سے ان شعبوں میں استفادہ کی دعوت دی جن کی وجہ سے مغربی اقوام کو ترقی،
------------------------------
(باقی ص: ۶۸ کا) عربی، فارسی اور فرنچ کی تعلیم پائی، سترہ سال کی عمر میں حکومت کی ملازمت میں داخل ہوا، وہ نوجوانی میں ترکی کے مشہور مفکر اور محب وطن رہنما ابراہیم شیناسی (۱۸۲۶ء۔۱۸۷۱ء) سے متاثر ہوا، اور ان کے مشہور رسالہ ’’تصویر افکار‘‘ کی ادارت میں شامل ہوگیا، ۱۸۶۵ء میں جب شیناسی نے فرانس میں پناہ لی تو اس نے اس رسالہ کی ادارت سنبھالی اور ایک سیاسی اخبار نویس اور مقالہ نگار کی حیثیت سے نمایاں ہوا، اپنے جرات مندانہ خیالات اور مضامین کی پاداش میں ۱۸۶۷ء میں اسے بھی ترکِ وطن کرنا پڑا، اس نے جلاوطنی کے تین سال لندن، پیرس اور وی آنا میں بسر کئے، وہاں اس نے جدید قانون اور اقتصادیات کا مطالعہ کیا، ۱۸۷۱ء میں ترکی واپس ہوا اور اپنے شہرہ آفاق ڈرامہ ’’وطن‘‘ کے نتیجہ میں جس نے آزادی اور حب الوطنی کا عام جوش پیدا کردیا تھا، وہ قبرص جلاوطن کردیا گیا، ۱۸۷۶ء میں سلطان عبدالعزیز کی معزولی کے بعد واپس ہوا لیکن پھر جلد حکومت کا معتوب ہوا اور اپنی زندگی کا آخری سال نظربندی یا جلاوطنی میں گذار کر ۱۸۸۸ء میں وفات پائی۔
برنارڈ لوئیس (BERNARD LEWIS) اپنی کتاب (THE EMERGENCE OF MODERN TURKEY) میں لکھتا ہے۔
’’اپنی پرجوش حب الوطنی اور آزاد خیالی کے باوجود نامق کمال سچا اور پرجوش مسلمان تھا، اس کے مضامین میں جس مادرِ وطن (ترکی) کا تذکرہ آتا ہے، اگرچہ اس کی بنیاد فرقہ کے بجائے علاقہ پر ہے، وہ اس کے تصور میں ایسا ہی خالص اسلامی ہے، جیسے عثمانی سلطنت کا تصور تھا، وہ اپنی پوری زندگی میں شدت کے ساتھ مسلمانوں کے روایتی اقدار و عقائد سے وابستہ رہا ہے، اس نے بسا اوقات ’’تنظیمات‘‘ کے رہنماؤں پر بڑی تند و تیز تنقید کی کہ وہ قدیم اسلامی روایات کے تحفظ میں ناکام رہے، اور انہوں نے یورپ سے جدید خیالات اور ’’اداروں‘‘ کو درآمد کیا۔
نامق کمال نے اسلامی اقدار کی علم برداری کی اور جن یورپین مصنفوں نے اسلام کو گھٹا کر پیش کرنے کو اپنا (باقی ص: ۷۰ پر)