کی نقل ’’مطابق اصل‘‘ شروع کردی، وہ مغربی تہذیب کے ان کھوکھلے مظاہر اور سطحی اصلاحات میں الجھ کر رہ گیا، جن سے قوموں اور تہذیبوں کی زندگی میں کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا اور نہ اس کا حقیقی قوت اور سیاسی عظمت سے کوئی اصولی تعلق ہے، اس اقدام نے ترکی کو اپنے ماضی قریب سے اور اس شاندار علمی ترکہ اور ذخیرہ سے بے تعلق اور محروم کردیا جس کی تعمیر و ترقی میں کثیر التعداد لائق ترکی نسلوں اور دماغوں نے شاندار حصہ لیا تھا، اس نے اس ترکی کو جس کے مضبوط ہاتھوں میں کل تک دنیائے اسلام کی سیاسی قیادت و تولیت تھی، اس کے لئے کلیۃً اجنبی اور پردیسی بنادیا، اور ملک کے سربراہوں اور ان عوام کے درمیان ایک زبردست خلیج حائل کردی جو ایمان و محبت اور دینی جذبہ سے معمور و مخمور تھے، جن کے جذبہ کی قوت و عظمت کے سامنے دنیا کو بارہا عزت و احترام کے ساتھ سرجھکانے پر مجبور ہونا پڑا تھا، اور جنہوں نے (ملک کی داخلی کمزوریوں اور فوجی حکام کی بددیانتی اور خیانت کے باوجود بھی) یورپ کے متواتر حملوں اور مسلسل سازشوں کا مقابلہ کیا تھا، اس غیر دانشمندانہ و مقلدانہ اقدام نے قوم سے اعتماد و سرخوشی اور جوش و گرمجوشی کی وہ دولتِ بے بہا چھین لی جو اس عظیم مسلم قوم کا امتیاز و خصوصیت رہی ہے، اس نے ترکی معاشرہ میں اضطراب وانتشار، نیم دلی، افسردگی اور مایوسی پیدا کردی۔
جدید معاشرہ کی تشکیل کے لئے، ترکوں کے دینی شعور اور اسلامی جذبہ کو کچلنے کے لئے اور قوم کا رخ مادیت، قوم پرستی اور مغربی تمدن کی نقالی کی طرف پھیردینے اور اس کو ایک محدود دائرہ کے اندر محصور کردینے کے لئے اس سنگ دلی اور تشدد سے کام لیا گیا جس کی نظیر کم ملے گی، اس کا شکار زیادہ تر وہ لوگ ہوئے جن سے ملک وقوم کے بے حد فائدہ پہونچ سکتا تھا، ترکی کے حکمرانوں اور بے بس و مجبور عوام کے درمیان عقلیت اور طرزِ فکر کی یہ کشمکش آج بھی موجود ہے، ایمان کی چنگاری دلوں میں اب بھی پوشیدہ ہے، اور ادنیٰ اشارہ اور معمولی تحریک سے وہ دلوں کے اندر بھڑک اٹھنے