’’اگرچہ ضیاء گوک الپ کا انتقال اتاترک کے انقلابی اصلاحات کے ابتدائی دور ہی میں ہوگیا تھا، لیکن ان کی تحریروں میں وہ خیالات پائے جاتے ہیں جنہیں ان اصلاحات کی بنیاد کہا جاسکتا ہے، اسلامی اصلاح کے سلسلہ میں ان کے خیالات کو سب سے زیادہ نقصان شدت پسند سیکولرازم کے اس عہد میں ہوا جو ان کے بعد فوراً ہی شروع ہوگیا تھا پھر بھی بہرحال میرے نزدیک اگر وہ زندہ رہتے تو اتاترک کی پالیسی سے اپنے کو رضامند کرلینے میں کامیاب ہوجاتے، کیونکہ خلافت کے متعلق ان کے تصورات ان کے مغربی قومیت کے نظریہ کے منطقی نتائج سے یوں ہی مختلف تھے، خلافت کے موضوع پر ان کے تصورات زیادہ تر ترکی قوم پرستی کو ایک آفاقی اور بین الاقوامی بنیاد دینے کی کوشش میں ’’خیالستانوں‘‘ پر مبنی تھے، اس کے علاوہ ہم جانتے ہیں کہ دستور میں سیکولرازم اور آزادیٔ ضمیر اور آزادیٔ فکر کی جو دفعات ہیں، وہ انہیں کے قلم سے نکلی ہوئی ہیں، کیونکہ ۱۹۲۴ء میں جو نیا دستور اساسی بنانے کے لئے کمیٹی مقرر کی گئی تھی، وہ اس کے ایک ممبر تھے، اتاترک نے مثالی اصلاح کی جو انقلابی پالیسی اختیار کی تھی، اس سے وہ اپنے کو شاید ہم آہنگ نہ کر پاتے اگرچہ عمل میں ان کے بعض نظریات سے ہٹ لیا گیا ہو پھر بھی ترکی کی جدید اصلاحات کے اساسی نکات پر انہیں کا اندازِ فکر اب تک چھایا ہوا ہے۔‘‘١؎
آگے چل کر وہ ضیاء گوک الپ کا فکری وعلمی کردار بیان کرتے ہوئے ایک فکری قائد اور ایک مکتبِ فکر کے بانی کی حیثیت سے اس کی اہمیت کو اس طرح واضح کرتے ہیں:۔
’’اگرچہ موجودہ عہد کے ترکی اور بیرونی عالموں کی تصنیفات کے مقابلہ میں تاریخ، عوامی تمدن اور اجتماعیات پر ان کی خود تحقیقات زیادہ وقعت نہیں رکھتی ہیں، لیکن اس سے راستہ کے امام اور بانی ہونے کی حیثیت سے ان کے مرتبہ میں مطلق کوئی فرق نہیں آتا ہے، اگر ان کے بعض تصورات
------------------------------
١؎ BERKES. NIYAZI TURKISH NATIONALISM AND WESTERN CIVILIZATION, (ZIA GOKALP) P.267