’’جب اہلِ مغرب نے اپنے کو قرونِ وسطیٰ کے اثرات سے آزاد کیا اس وقت روس کے آرتھوڈکس عیسائی اپنے کو آرتھوڈکس چرچ کا غلام سمجھتے تھے، چنانچہ روسی قوم کو بیزنطینی تہذیب سے آزاد کرنے میں اور مغربی تہذیب سے آشنا کرنے میں پطرس اعظم کو سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، یہ جاننے کے لئے کہ کسی ملک کو نمونۂ مغرب بنانے اور اس کو یورپ کے رنگ میں رنگنے کے لئے کیا وسائل و اسباب اختیار کئے جاسکتے ہیں، تاریخ اصلاحات پطرس کا مطالعہ کرنا چاہیے، اس زمانہ میں لوگوں کا خیال تھا کہ روسی ترقی کے اہل نہیں ہیں، لیکن اس انقلاب کے بعد انہوں نے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کے مراحل طے کئے، یہ تاریخی حقیقت اس بات کے ثبوت کے لئے بالکل کافی ہے کہ مغربی تہذیب ہی ترقی کی واحد شاہراہ ہے۔‘‘١؎
پھر وہ یہ ثابت کرتے ہوئے کہ آزادی اور قومی وقار کی حفاظت کے لئے مغربی تہذیب پر اپنا اقتدار قائم کرنا ضروری ہے، لکھتا ہے:۔
’’ہم کو دو میں سے ایک راستہ لامحالہ اختیار کرنا ہوگا، یا تو ہم مغربی تمدن قبول کریں، یا مغربی طاقتوں کا غلام رہنا پسند کریں، ہمیں ایک بات کا فیصلہ کرنا ضروری ہے، ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اپنی حریت کی حفاظت کے لئے مغربی تہذیب پر اپنی سیادت قائم کریں۔‘‘۲؎
ضیاء گوک الپ ترکیِ جدید کے فکری معماروں میں اہم ترین حیثیت رکھتا ہے، اس نے وہ فکری اساس اور جدید نقطۂ نظر مہیا کیا جس پر ذہنی و اصولی حیثیت سے اس جدید ریاست اور جدید معاشرہ کی بنیاد رکھی گئی، پروفیسر نیازی برکس نے اس کے منتخب مضامین کا جو مجموعہ شائع کیا ہے، اس کے مقدمہ میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ ترکی کی جدید اصلاحات کے اساسی نکات پر اسی کا اندازِ فکر اب تک چھایا ہوا ہے، وہ کہتے ہیں:۔
------------------------------
١؎ ایضاً ص: ۲۷۶
۲؎ ایضاً ص: ۲۶۶