’’معاشرے، مذاہب و ثقافت کے اختلاف کے باوجود ایک مشترک تہذیب اختیار کرسکتے ہیں، جاپانی اور یہودی، مذہب و عقیدہ میں اختلاف کے باوجود اہلِ مغرب کے ساتھ ان کی تہذیب میں برابر کے شریک ہیں۔‘‘١؎
وہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ مذہب اور تہذیب دو مختلف چیزیں ہیں، ’’اسلامی تہذیب‘‘ یا ’’مسیحی تہذیب‘‘ ایک قسم کا مغالطہ ہے، مذہب عقیدے اور بعض عبادات و مراسم تک محدود ہے، جس کا علوم و فنون سے کوئی رشتہ نہیں۔
’’کوئی ادارہ ایسا نہیں ہوسکتا جو ان گروہوں کے درمیان مشترک ہو جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، جب واقعہ یہ ہے کہ مذہب صرف ان مقدس اداروں، عقائد اور مراسم کے مجموعہ کا نام ہے تو وہ ادارے جو مذہبی تقدس نہیں رکھتے (مثلاً سائنسی افکار، صنعتی آلات و اوزار، جمالیاتی معیار) ایک علیٰحدہ نظام کی تشکیل کرتے ہیں، جو مذہب کے دائرہ سے خارج ہوتا ہے، ایجابی علوم جیسے ریاضیات، طبیعیات، علم الحیات، نفسیات، عمرانیات، صنعتی طریقے اور فنون لطیفہ کا مذاہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، چنانچہ کسی تہذیب کا بھی مذہب سے انتساب درست نہیں ہے، نہ مسیحی تہذیب کا وجود ہے، نہ اسلامی تہذیب کا، ٹھیک جس طرح سے مغربی تہذیب کو مسیحی تہذیب کہنا صحیح نہیں، اسی طرح مشرقی تہذیب کو اسلامی تہذیب کہنا بھی درست نہیں۔‘‘۲؎
اس انقلاب انگیز اقدام کے لئے وہ روس کی مثال دیتا ہے، جس نے قدامت پسند کٹر مسیحی کلیسا کی پیروی اور مشرقی رنگ کی تہذیب سے تعلق رکھنے کے باوجود ترقی یافتہ مغربی تہذیب کو اختیار کیا اور مغرب کی آزاد و طاقت ور قوموں کی صف میں کھڑا ہوگیا، وہ لکھتا ہے:۔
------------------------------
١؎ ایضاً ص: ۲۶۹، ۲۷۰
۲؎ ایضاً ص: ۲۷۱، ۲۷۲