قدیم تمدن کے امتداد و تسلسل کی ایک شکل ہے، جس کے نشوونما اور حفاظت میں (بقول اس کے) ترکوں کا خاص حصہ رہا ہے، وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے:۔
’’مغربی تہذیب درحقیقت بحرِروم کی تہذیب کا امتداد (CONTINUATION) ہے، اس تہذیب (جس کو ہم بحیرۂ روم کے منطقہ کی تہذیب کہتے ہیں) کے بانی سماری (SUMERIANS) سیتھی (SCYTHIANS) فینقی (PHOENICIANS) رعاۃ (HYKSOS) ترکی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ تاریخ میں قدیم زمانوں سے پہلے ایک طورانی دور کا وجود ملتا ہے، اس لئے کہ وسطِ ایشیا کے قدیم باشندے ہمارے اجداد تھے، اس کے عرصہ بعد مسلمان ترکوں نے اس تہذیب کو ترقی دی اور اس کو یورپ تک پہنچایا، پھر مغربی و مشرقی سلطنت رومہ کے خاتمہ کے بعد ترکوں نے یورپ کی تاریخ میں انقلاب پیدا کیا، اور اسی بنیاد پر ہم مغربی تہذیب کا جزو ہیں، اور ہمارا اس میں حصہ ہے۔‘‘١؎
مغربی تہذیب کا اختیار کرنا کیوں ضروری ہے، اس انتخاب و اختیار کے نتیجہ میں کیا انقلاب رونما ہوگا اور ترکی کے جسدِ مردہ میں کس طرح نئی قوت اور نئی روح پیدا ہوجائے گی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے وہ لکھتا ہے:۔
’’جب کوئی قوم اپنے نشو و ارتقاء کا ایک بڑا فاصلہ طے کرچکتی ہے تو اپنی تہذیب کا تبدیل کرنا بھی ضروری سمجھتی ہے، جب ترک خانہ بدوش قبائل کی حیثیت سے وسطِ ایشیاء میں تھے تو اس وقت وہ مشرقِ بعید کی تہذیب کے اثر میں تھے، جب سلطنت (عثمانی) کے عہد میں آئے تو بیزنطینی دائرہ میں داخل رہے، اور جبکہ وہ عوامی دورِ حکومت کی طرف منتقل ہورہے ہیں، انہوں نے مغربی تہذیب کو قبول کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا ہے۔‘‘ ۲؎
وہ ثابت کرتا ہے کہ اس انتخاب سے ترکی کی اسلام سے علیٰحدگی ضروری نہیں۔
------------------------------
١؎ TURKISH NATIONALISM AND WESTERN CIVILIZATION, GOKALP: P.267
۲؎ TURKISH NATIONALISM AND WESTERN CIVILIZATION, P.271