سالونیکا میں مستقل قیام اختیار کرنے کے بعد ضیاء ترکی کا ایک قوم پرست لیڈر بن گیا، یہاں ترکی کے اس مغربی سرحدی علاقہ میں رہ کر اس کو روشن خیال ترک اور مغربی فضلاء سے زیادہ قریب ہونے کا موقع ملا اور اس کے اندر ترکی قومیت کی بنیاد پر اتحاد و تنظیم کے فکر نے نشوونما حاصل کیا، جس میں اسلام بنیادی عامل (FACTOR) کی حیثیت نہیں رکھتا، ۱۹۱۲ء میں جنگِ بلقان کے نتیجہ میں ترکی کے زیر حکومت متعدد اسلامی ممالک (۱۹۱۲ء میں البانیہ اور ۱۹۱۶ء میں حجاز) نکل گئے جس سے تحریک قومیت و طورانیت قدرۃً زیادہ مقبول اور حقیقت پسندی پر مبنی نظر آنے لگی، ترکی کی نئی نسل پر گوک الپ کا ذہنی اثر اس وقت بہت مستحکم اور وسیع ہوگیا، جب وہ ۱۹۱۵ء میں (محض اپنی ذاتی قابلیت اور مضامین کی بناء پر بغیر کسی علمی سند و فراغت کے) استنبول یونیورسٹی میں علوم عمرانیہ کا استاد اول مقرر ہوا، ۱۹۱۸ء میں دوسرے محبِ وطن ترکوں کی طرح اس کو بھی استنبول چھوڑنا پڑا، ۱۹۲۱ء میں جب مصطفیٰ کمال نے یونانیوں پر فتح حاصل کی تو وہ رہا ہوا، ۱۹۲۲ء میں وہ ہیئتِ تالیف و ترجمہ کا صدر نامزد ہوا، وہ کمال کا پرجوش حامی تھا، اور انتخاب میں اس نے اس کے لئے بڑا کام کیا تھا، اگرچہ ان سے اس کے ذاتی تعلقات کبھی گہرے نہیں ہوئے ۱۹۲۲ء میں جب پارلیمنٹ منتخب ہوئی اس میں وہ دیارِ بکر کا نمائندہ تھا، ۱۹۲۴ء میں وہ علیل ہوا، کمال اتاترک نے یورپ میں اس کے علاج کے مصارف کی ساری ذمہ داری لینے کا وعدہ کیا گوک الپ نے صرف اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس کے خاندان کا خیال رکھا جائے اور اس کی اس تصنیف کی اشاعت کا انتظام کیا جائے جو ترکی کی تہذیب کے موضوع پر ہے، ۲۵ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو ۴۸ یا ۴۹ سال کی عمر میں انتقال کیا اور مقبرہ سلطان محمود میں دفن ہوا۔١؎
ضیاء گوک الپ نے مغربی تہذیب کو اختیار کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ وہ دراصل اس
------------------------------
١؎ ماخوذ از کتاب FOUNDATIONS OF TURKISH NARIONALISM از HEYD. U