سے زیادہ متاثر ہوا، اس لئے کہ وہ بھی ذہنی کشمکش سے دوچار تھا، یہ وہ زمانہ تھا کہ انقلاب فرانس کے افکار وخیالات ترکی کی جدید نسل کے خون میں جوش پیدا کررہے تھے، ضیاء کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر آزاد خیالی اور حریت پسندی کے خیالات رکھتا تھا، اس وقت دیارِ بکر میں ترکی رہنماؤں اور حریت پسندوں کا ایک جلاوطن گروہ موجود تھا، جس سے ضیاء نے روابط پیدا کئے، ضیاء نے اسی سلسلہ میں نامق کمال، ضیاء پاشا، احمد مدحت آفندی وغیرہ کے مضامین پڑھے، عبداللہ جودت کی آمد کے بعد اس کا خفیہ تحریک سے ارتباط بڑھ گیا، یہ کرد ڈاکٹر ملحد تھا، اور ہیکل (HAECKEL)، بشنر (BUCHNER) اسپنسر (SPENCER) اور لی بون (LE BON) سے بہت متاثر تھا، اسی زمانہ میں ایک یونانی استاد کے اثر سے اس کے اندر عقیدے اور عقلیت کی کشمکش پیدا ہوئی، اس نے اسلامی فلسفہ اور تصوف سے تشفی حاصل کرنی چاہی، مگر بقول اس کے اس میں اس کو کامیابی نہیں ہوئی اور وہ ارتیابیت (AGNOSTICISM) میں گرفتار ہوگیا۔ ۱۸۹۶ء میں وہ قسطنطنیہ گیا اس کو صرف ویٹرینری کالج (VETERINARY COLLEGE) میں وظیفہ مل سکا، لیکن وہ تعلیم سے زیادہ سیاست سے دلچسپی لیتا تھا، اسی بنا پر انجمن اتحاد وترقی کا رکن چن لیا گیا جو فری میسن کی طرح خفیہ کام کرتی تھی، اس کی بعض باغیانہ تحریروں کی بنا پر کالج سے اس کا اخراج ہوا اور وہ گرفتار کرلیا گیا، جیل سے چھوٹنے کے بعد اس کو دیارِ بکر میں نظر بند کردیا گیا، اس عرصہ میں اس نے گہرا مطالعہ کیا، اس کی توجہ اور دلچسپی کے خاص مضامین مغربی بالخصوص فرانسیسی فلسفہ، سائیکالوجی اور سوشیالوجی تھے، وہ جلد دیارِ بکر کی حریت پسند عنصر کی مرکزی شخصیت بن گیا، ۱۹۰۶،۷ء میں اس عنصر نے ضیاء کی قیادت میں جابرانہ نظام اور انتظامی مشینری کے خلاف بغاوت کردی، ۱۹۰۹ء میں سلطان عبدالحمید خاں کی معزولی کے بعد ضیاء اور اس کے رفقاء آزادی سے کام کرنے کے قابل ہوئے اس نے دو اخبارات ’’پیام‘‘ اور "DECLE" جاری کئے۔