فاتح قوم کے نزدیک سیاسی غلامی کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اس بیسویں صدی عیسوی کی آخری دہائیوں میں جب دنیا دو عظیم عالمگیر جنگوں سے گزر چکی ہے اور تیسری جہاں سوز جنگ کے بادل امنڈ رہے ہیں، اور کسی ملک کا کسی ملک کو غلام بنانا اور اس کی مرضی کے خلاف اس پر قبضہ رکھنا ایک ناقابل فہم اور ناممکن العمل سی بات سمجھی جانے لگی ہو (۱)، دنیا کی بڑی طاقتیں اب روز بروز سیاسی اقتدار کے بجائے ذہنی و تہذیبی اقتدار اور یکسانی و ہم رنگی پا قانع ہوتی چلی جائیں گی۔
مغرب کے اس ذہنی و تہذیبی اقتدار اور اصولی و نظریاتی وحدت کو دنیا میں اگر کوئی طاقت و دعوت چیلنج کر سکتی تھی اور اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی تھی، تو صرف عالم اسلام کی جداگانہ شخصیت، اس کی دینی و اخلاقی دعوت اور اس کا فلسفہ زندگی تھا، لیکن ایک طرف ان تاریخی عوامل کی بناء پر جن کی ہم نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب "انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر" میں تشریح کی ہے، عالم اسلام مغرب کی ابھرتی اور پھیلتی ہوئی طاقت سے آنکھیں ملانے کے قابل نہیں رہا تھا، اور جو طبقہ اس دور انقلاب میں اس کی قسمت کا مالک بنا ہوا تھا، وہ جیسا کہ ہم نے ایک پچھلے باب میں بیان کیا ہے، تمام تر مغرب کا نہ صرف خوشہ چیں بلکہ دایہ مغرب کا شیر خوار بچہ تھا، جس کا (ذہنی) گوشت پوست اسی کے دودھ اور اسی کے خون جگر سے تیار ہوا تھا، دوسری طرف ان اسلامی ملکوں کے عوام و جمہور میں ایمان و عقیدہ کا جو اثر، اخلاقی رکھ رکھاؤ، معاشرتی روایات کا احترام اور نفس کی ترغیبات کا مقابلہ کرنے کی جو بچی کھچی طاقت تھی (جس سے مغرب عرصہ ہوا محروم ہو چکا ہے) اس کو مغرب نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) لیکن افغانستان پر روس کے فوجی تسلط نے اس کلیہ کو مجروح و مشکوک بنا دیا ہے۔