اخلاق کےساتھ ہم آہنگ ہو، اسلام نے اس کوزندگی کا جو ضابطہ، دنیا کا جو مخصوص نقطئہ نظر، بنی نوع انسان کے ساتھ معاملہ کرنے کے لئے جو خاص احکام، اور آخرت کے لئے مسلسل جدوجہد اور جہاد کا جو جذبہ عطا کیا ہے، اس پر مبنی ہو اور اس سے وہ زندگی وجود میں آئے جس کے متعلق قرآن نے شہادت دی ہے:-
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَO
(النحل-۹۷)
جو شخص نیک عمل کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہو تو ہم دنیا میں بھی اس کی زندگی اچھی طرح بسر کرائیں گے اور ان کو آخرت میں بھی ان کےبہترین اعمال کاصلہ ضرور عطا فرمائیں گے۔
ایسا طریق حیات جو رسول اللہ صلےعلیہ وسلم پر ایمان اور اس عقیدہ پر مبنی ہو کہ وہ انسانیت کے لئے اسوہ کامل، اس کے ابدی رہنما اور قائد، اور قیامت تک کے لئے قابلِ تقلید نمونہ اور محبوب آقا ہیں، ان کی لائی ہوئی شریعت زندگی کا دستور، قانون سازی کی بنیاد، اور وہ تنہاطریق زندگی ہے جس کے ذریعہ دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے، اور اس کے علاوہ اللہ کو کوئی اور طریقہ زندگی قبول نہیں۔
وہ عالی دماغ اور حوصلہ مند انسان جو مغرب سے وہ علوم حاصل کرے جو اس قوم اور ملک کے لئے ضروری ہیں، جن کے اندر کوئی عملی افادیت اور جس پر مغرب و مشرق کسی کی چھاپ نہیں، وہ محض تجربی اور عملی علوم (SCIENCES) کہے جاسکتے ہیں، قرونِ مظلمہ اور دین سے بغاوت کے دور میں (جب یورپ اپنا دماغی توازن کھو چکا تھا، اور دینی حقائق پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے قابل نہیں تھا) ان علوم و نظریات پر جو گرد