بہت دور کردیتا ہے، جس کا نمونہ رسولِ خدا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور ان کےصحیح متبعین نے دنیا کے سامنے پیش کیا، وہ امت پر ایک اجنبی رنگ چڑھا دیتا ہے، جس کے بعد وہ صرف اپنے ناموں یا اپنے ملّی و قومی لباسوں سے ( جنھیں بعض عرب و مسلم اقوام ابھی تک اپنائے ہوئے ہیں) یا اس کی مسجدوں سے بلند ہونے والی اذانوں یا مختلف ملکوں میں کم و بیش تعداد میں مسجد جانے والوں سے پہچانی جاتی ہے، گویا اسے اسلام سے رسوم کا ایک بایک دھاگہ باندھے ہوئے ہے، جو خدانخواستہ اگر ٹوٹا تو ہر چیز ٹوٹ کر بکھر جائے گی۔
میرا یقین ہے کہ بیک وقت موجودہ تمدنی سہولتوں، جدید آلات و ایجادات اور سائنسی ترقیات سے استفادہ اور اسلامی تمدن کے حسن و سادگی، حقیقت پسندی، طہارت و نظافت اور اسلام کے اخلاقی اصولوں اور معاشرتی تعلیمات کا کاربند رہنا ممکن اور قابلِ عمل ہے، مگر یہ اس وقت ممکن ہے، جب اسلامی حکومتوں اور معاشروں کو آزادانہ و مجتہدانہ فکر و نظر اور جرائتمندانہ منصوبہ بندی کی توفیق ملے، اور جب ان کے اندر فراست ایمانی، اصلیت پسندی، اسلامی تعلیمات و ثقافت اور شخصیت کی برتری پر ایمان ہو، یہ منصوبہ بندی اتنی جاذب نظر، دلفریب اور قابلِ قدر و لائق احترام ہوگی کہ ان اسلامی شہروں کا رخ بیرونی ممالک کے مفکر اور دانشور اس کثرت سے کریں گے جتنے آج تفریح کرنے والے بھی نہیں کرتے، اور تمدن کا یہ نقشِ جمیل، بہت سے مغربی ممالک کو کم سے کم اس مسئلہ پر سنجیدگی سے سوچنے اور اسلامی تمدن کی برتری کا اعتراف کرنے پر مجبور کرےگا، جیسا کہ اندلس کے اسلامی تمدن کے بارے میں دیکھنے میں آچکا ہے، جس مغربی تہذیب اور اس کے ادب و فلسفہ پر گہرا اثر پڑا ہے۔