لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مشرق و مغرب اور عرب و عجم کے کسی اسلامی ملک کو ابھی تک اس کی توفیق نہیں ہوئی، نہ ان میں سے کسی ایک کو اتنی جرات ہوئی کہ وہ تجربہ کے طور پر ہی ایسا کر کے دیکھتا، نتیجہ یہ ہوا کہ یہ سب ممالک مغربی کتاب تمدن کا ایک ناقص اور غلط ایڈیشن اور ایک روکھی پھیکی تصویر بن کر رہ گئے ہیں، جو اہل مغرب کےل ئے کوئی کشش نہیں رکھتی، جب وہ کبھی ان ممالک سے تفریحاً گزرتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ "بضاعتنا ردت الینا" (یہ ہماری ہی چیز ہے جو ہمیں مل رہی ہے۔)
تہذیبی لائحہ عمل، محنت و ذہانت، تخلیق و اجتہاد اور جرات و عزم کا نام ہے، وہ نقل و تقلید اور جزوی اصلاح و ترمیم کا نام نہیں، اسلام نے حلال و حرام کے حدود قائم کر کے ان کے توڑنے کی ممانعت کر دی ہے اور پاک اور بے ضرر تفریح کے لئے (جو اسراف اور حق تلفی، فحش و گناہ سے خالی ہو) بڑی گنجائش دے رکھی ہے، وہ اس زندگی کو ناپسند کرتا ہے، جو شریف و بہادر مردوں کے شایان شان نہیں، اور یہی روح، لباس و غذا، معاشرت و اجتماع، تفریح و لذت اندوزی کے اسلامی احکام میں کار فرما ہے، اجتماعی مصالح کی رعایت، مفاسد اور مضرتوں سے اجتناب، فوجی طاقت اور دفاع کی تیاری اور علم و حکمت کے صالح اور نافع پہلو کو اختیار کرنے کی وہ نہ صرف اجازت بلکہ ترغیب دیتا ہے، بشرطیکہ یہ چیزیں اسلامی قومیت و شخصیت کی قیمت دے کر نہ حاصل کی جائیں، اور ان سے امت میں احساس کہتری، بے اعتمادی، عاجلانہ و سطحی تقلید، دوسروں کی نقل کا مجنونانہ شوق اور ان کی زندگی پر رشک بے پایاں کے جذبات نہ پیدا ہوں۔
یہ ایسی تہذیب کے اصول و اساس ہیں، جن میں ریشم کی نرمی بھی ہے، اور