ان لوگوں نے دین کو واقعات و حوادث کے پیچھے کی ایک فرسودہ آواز سمجھنا شروع کر دیا ہے اس لئے وہ بجائے بلند ہونے کے اور پست ہوتے جا رہے ہیں۔
میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان مغرب سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے، بالخصوص صنعتی علوم و فنون کے میدانوں میں، اس لئے کہ علمی افکار و اسالیب کا اختیار کرنا درحقیقت تقلید نہیں، خصوصاً اس امت کے لئے جس کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو ہر ممکن ذریعہ سے علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہو، علم نہ مغربی ہے، نہ مشرقی، علمی انکشافات و تحقیقات ایک ایسے سلسلہ کی کڑی ہیں جس کی کوئی انتہا نہیں، اور جس میں تمام بنی نوع انسان برابر کے شریک ہیں، ہر عالم اور سائنٹسٹ ان ہی بنیادوں پر اپنی تحقیق کی بنیاد رکھتا ہے، جو اس کے پیشروؤں نے قائم کی تھیں، خواہ وہ اس کی قوم سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی اور قوم سے، اسی طرح ایک انسان سے دوسرے انسان، ایک نسل سے دوسری نسل، ایک تہذیب سے دوسری تہذیب تک، تعمیر و اصلاح و ترقی کا کام برابر جاری رہتا ہے، اس لئے اگر کسی خاص زمانہ یا خاص تمدن میں کام انجام پائیں تو یہ قطعاً نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس زمانہ یا اس تہذیب کے ساتھ مخصوص ہیں، ہو سکتا ہے کہ کسی اور زمانہ میں کوئی دوسری قوم جو زیادہ باہمت اور حوصلہ مند ہو میدان علم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے، لیکن بہرحال سب اس کام میں برابر کے حصہ دار ہیں۔
ایک دور ایسا بھی آیا تھا، جب مسلمانوں کی تہذیب و تمدن یورپ کے تہذیب و تمدن سے زیادہ شاندار تھی، اس نے یورپ کو بہت سی انقلابی قسم کی صنعتی و فنی ایجادات عطا کیں، اس سے بڑھ کر یہ کہ اس یورپ کو اس عملی طریقہ کے اصول و مبادی دیئے جس پر علم جدید اور تہذیب جدید کی بنیاد ہے، لیکن اس کے باوجود جابر بن حیان کا