فَأَمَّا مَن طَغَىٰ o وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا o فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَىٰ o
(النّٰزِعٰت - ۳۹،۳۸،۳۷)
جس شخص نے (حق سے) سرکشی کی ہوگی اور (آخرت کا منکر ہو کر) دنیوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی سو دوزخ ( اس کا) ٹھکانہ ہوگا۔
وہ اس شخص کی تعریف کرتا ہے، جو آخرت کو ترجیح دیتے ہوئے اور پیشِ نظر رکھتے ہوئے دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب زندگی گذارتا ہے، وہ کہتا ہے:-
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِo (البقرہ - ۲۰۱)
اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔
حضرت موسٰی علیہ السلام کی زبان سے ارشاد ہوتا ہے:-
وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ۔ (الاعراف - ۱۵۶)
اور ( خدایا!) اس دنیاکی زندگی میں بھی ہمارے لئے اچھائی لکھ دے، اور آخرت کی زندگی میں بھی ہمارے لئے اچھائی کر، ہم تیری طرف لوٹ آئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:-
وَ آتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَo (النحل - ۱۲۲)
اسے دنیا میں بھی بہتری دی اور بلاشبہ آخرت میں بھی اس کی جگہ صالح انسانوں میں ہوگی۔
وہ تعبیر اور تمثیل جو اس دنیا کے بارہ میں ایک مسلمان کے موقف کو بہت کامیابی اور نزاکت کے ساتھ متعین کرتی ہے، وہ یہ ماثور حکیمانہ جملہ ہے، جو جمعہ کے بعض خطبات کا جزو ہے "إِنَّ الدُّنْيَا خُلِقَتْ لَكُمْ وَ أَنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَةِ" (دنیا تمہارے لئے