پیدا کی گئی ہے، اور تم آخرت کے لئے پیدا کئے گئے ہو) مسلمان دنیا کے اسباب و وسائل سے اس طرح فائدہ اٹھاتا ہے جیسے کہ یہ چیز اس کے لئے مسخر کر دی گئی بلکہ اسی کے لئے وجود میں آئی ہے، اور آخرت کے لئے وہ اس طرح کوشش کرتا ہے جیسے کہ وہ اسی کے لئے پیدا کیا گیا ہے، وہ دنیا اور اس کے اسباب و وسائل کو مرکب سمجھتا ہے، راکب نہیں، غلام اور ماتحت سمجھتا ہے، آقا اور مالک نہیں، ذریعہ اور وسیلہ سمجھتا ہے، مقصد اور غایت نہیں، آخرت کو وہ اپنے سفر کی "منزل مقصود" سمجھتا ہے، جہاں اس کو پہونچنا ہے، ایسا وطن سمجھتا ہے جہاں اس کو پناہ لینا ہے، چنانچہ وہ اس کے لئے اپنی ساری قوت جمع کرتا ہے، ہر قسم کی زحمت مول لیتا ہے، عزم اور شوق کے ساتھ اپنے وسائل کو کام میں لاتا ہے، اور یہ نبوت کی وہ مثال ہے جو رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے دی بھی۔ آپ نے فرمایا تھا :
مالی وللدنیا، انما انا کراکب استظل تحت شجرۃ ثم راح و ترکھا۔ (۱)
میرا اور دنیا کا تعلق صرف اتنا ہے کہ میری مثال اس سوار کی طرح ہے جو تھوڑی دیر کے لئے ایک درخت کے نیچھ سایہ لینے کے لئے بیٹھ گیا پھر اس کو چھوڑ کر چلا گیا۔
دنیا کی زندگی کے بارہ میں قرآن کا یہ طرز بیان اور تمثیل رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی زندگی، آپ کی تعلیمات، آپ کی گفتگو، آپ کے جذبات، آپ کی دعاؤں، آپ کی خلوت و جلوت، ہر چیز سے عیاں ہے، ان قدسی نفوس کی زندگی بھی اس کی تصویر پیش کرتی ہے۔ جنہوں نے آپ کے دامن عاطفت میں تربیت پائی اور ان کی شخصیت اور سیرت کی تعمیر آپ کی تربیت میں ہوئی اور اسی طرح وہ تابعین اور دوسرے اہل ایمان و
------------------------------
۱۔ مسند احمد و ترمذی