کے اختیار کرنے کی دعوت دی اور ان کے تلامذہ نے وقتاً فوقتاً اس کی ضرورت ثابت کی، اور اس کے فوائد و فضائل بڑی بلند آہنگی سے بیان کئے، اس کا نتیجہ بھی اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ پوری عرب قوم صحیح طور پر قرآن مجید پڑھنے سے محروم و ناآشنا ہو جائے اور وہ پورا علمی ذخیرہ (جو اپنی وسعت اور علمی قیمت میں بے نظیر ہے) بے معنی اور بیکار ہو کر رہ جائے۔
ان تجاویز اور مشوروں سے مستشرقین کے حقیقی مقاصد و خیالات ان کی دور بینی اور ان کی اسلام دشمنی کا پورادا اندازہ ہوسکتا ہے، ان میں سے اکثر کی تصنیفات اسلام کی بنیادوں پر تیشہ چلاتی ہیں، اسلامیات کے سرچشموں (بشمول حدیث و فقہ) کو مشکوک قرار دیتی ہیں، مسلم معاشرہ میں سخت ذہنی انتشار اور تشکک و ارتیاب پیدا کرتی ہیں، اسلام کے حاملین و شارحین (محدثین و فقہاء) کی علمیت و ذہانت کی طرف متشکک بناتی ہیں، فاحش علمی غلطیوں، مضحکہ خیز غلط فہمیوں، زبان و قواعد سے ناواقفیت اور بعض اوقات کھلی تحریفات کی ان میں بکثرت مثالیں ملتی ہیں، لیکن ان کی اکثر و بیشتر تصنیفات مغربی و مشرقی دنیا میں مقبول ہیں، نیا تعلیم یافتہ طبقہ (جس میں سن رسیدہ اہل علم کی بھی ایک تعداد شامل ہے) اس کی حسن ترتیب، طرز استدلال، نتائج کے استنباط اور پیش کرنے کے علمی (سائنٹفک) طریقہ سے مرعوب و مسحور ہے، اور اس کی تشفی خالص علمائے مشرق کی تصنیفات سے نہیں ہوتی، مغربی علمائے مشرقیات جس وقعت و اعتماد کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، اور انہوں نے مشرق میں جو مقام حاصل کر لیا ہے، اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی تینوں موقر مجالس علمیہ (ACADEMIES) المجمع اللغوی، (مصر) المجمع العلمی العربی (شام)، المجمع اللغوی العراقی، (بغداد) میں مستشرقین کی ایک خاص تعداد رکن ہے، اور ان کے مطالعہ و آراء سے