کھو کر ماضی کے ملبہ کے نیچے سینکڑوں ہزاروں برس سے مدفون ہیں، اور جن کے احیاء کا مقصد مسلم معاشرہ میں انتشار پیدا کرنے، اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے، اسلامی تہذیب اور عربی زبان کو نقصان پہونچانے اور جاہلیت قدیمہ کو زندہ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا، چنانچہ انہی کی تحریروں کے اثر اور انہی کے شاگردان رشید کے ذریعہ مصر میں "فرعونی" عراق میں "آشوری" شمالی افریقہ میں "بربری" فلسطین و لبنان کے ساحل پر "فینقی" تہذیب و زبان کے احیاء کی تحریکیں شروع ہوئیں، اور ان کے مستقل داعی پیدا ہوگئے، انہی مشتشرقین اور ان کے شاگردوں نے شد و مد کے ساتھ یہ کہنا شروع کیا کہ قرآنی عربی زبان "فصحیٰ" اس زمانہ کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی، اس کے بجائے عامی (COLLOQUIAL) اور مقامی زبانوں کو رواج دینا چاہیے اور انہی کو اخبارات اور کتابوں کی زبان بنانا چاہیے، یہ بات انہوں نے اتنی خوبصورتی سے اور اتنے بار کہی کہ مصر میں اچھے پڑھے اور صاحب قلم لوگوں نے اس تحریک کی حمایت شروع کر دی (۱)، جس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا تھا کہ ہر ملک اور ہر صوبہ کی الگ الگ زبان ہو جائے، قرآن مجید اور اسلامی ادب سے عرب قوموں کا رشتہ کٹ جائے اور وہ ان کے لئے ایک اجنبی زبان بن جائے، عربی زبان اپنی بین الاقوامی حیثیت ختم کر دے اور عرب اس پورے دینی سرمایہ اور روح سے محروم ہو کر الحاد و ارتداد اور اختلاف و انتشار کے نذر ہو جائیں۔
اسی طرح انہوں نے عربی رسم الخط کے بجائے لاطینی رسم الخط (ROMAN CHARACTER)
------------------------------
۱۔ سلامہ موسی اس تحریک کا خاص علمبردار تھا، محمد حسین ہیکل، احمد امین اور احمد حسن الزیات بھی جزوی طور پر اس کے حامی تھے۔