ایک میدان ہےجسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اور جس سے غفلت نہیں برتی جاسکتی یہ میدان کھلا ہوا ہے، یہ ان معذرت پسندوں کی مثال سے ظاہر ہے جو عیسائیوں اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کاخیر مقدم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔"۱؎
اس نصف صدی کے اندر عالمِ اسلام میں اصلاح و ترقی ( درحقیقت تجددو مغربیت) کے جتنےعلمبردار پیدا ہوئے ان کے خیالات، اعلانات اور ان کے طریقہ کار میں مستشرقین کی اس دعوت و تلقین کا عکس صاف نظر آئے گا، یہاں تک کہ مستشرقین کے ان خیالات کو ان مصلحین و زعماء کے فکرو عمل کی اساس قرار دیا جاسکتا ہے، اور اس کو ان کا مشترک منشور (MANIFESTO) کہا جاسکتا ہے۔
ان مستشرقین نے ایک طرف اسلام کے دینی افکارو اقدار کی تحقیر کا کام کیا اور مسحیی مغرب کے افکارو اقدار کی عظمت ثابت کی اور اسلامی تعلیمات و اصول کی ایسی تشریح پیش کی کہ اس سے اسلامی اقدار کی کمزوری ثابت ہو اور ایک تعلیم یافتہ مسلمان کا رابطہ اسلام سے کمزور پڑ جائے اور وہ اسلام کے بارےمیں متشکک ہوجائے، کم از کم یہ سمجھنے پر مجبور ہو کہ اسلام موجودہ زندگی کے مزاج کے ساتھ ساز نہیں کرتا اور اس زمانہ کی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرنے سے عاجز ہے، ایک طرف انھوں نے بدلتی ہوئی زندگی اور تغیر پذیر اور ترقی یافتہ زمانہ کا نام لے کر خدا کے آخری اور ابدی دین اور قانون پر عمل کرنے کو روایت پرستی، رجعت پسندی اور قدامت و دقیانوسیت کا مرادف قرار دیا، دوسری طرف اس کے بالکل برعکس انھوں نے ان قدیم ترین تہذیبوں اور زبانوں کے احیاء کی دعوت دی جو اپنی زندگی کی صلاحیت اور ہر طرح کی افادیت
------------------------------
۱؎ HARRY GAY LORD DORMAN TOWARDS UNDERSTANDING ISLAM P 125