"تغیرو ترقی جو زندگی کا ایسا قانون ہےجس سے مفر نہیں، مسلمانوں کو اپنے اسلام کے بارے میں بھی اس سے کام لینا چاہئے تاکہ وہ جدید مغربی دنیا کے قدم بقدم چل سکیں اور کمزوری و بدنظمی کے اسباب سے نجات پاسکیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود اسلام پر بھی بحیثیت ایک مذہب کےاس قانون کو نافذ کریں اور اس کو زمانہ کے ساتھ بدلنے اور ترقی دینے کی کوشش کریں، ملت اسلامی کو بھی تغیرو ترقی کے اس فطری اور ابدی قانون کی پیروی میں مغربی معیار (IDEAL) کے مطابق چلنا اور اپنے مشرقی ماحول میں اس سے متاثر ہونا ضروری ہے، اس لئےکہ فکرو زندگی کے میدان میں اہل مغرب کے رحجانات طویل انسانی تجربوں کا نتیجہ ہیں، اہل مغرب نےان رحجانات کی تشکیل میں علمی اور سائنٹفک طریقہ استعمال کیا، یہ طریقہ اوہام وخرافات اور مخصوص عقائد سے متاثر نہیں ہوتا، اس کے پیش نظر صرف انسانیت کی فلاح ہوتی ہے۔"۱؎
تقریباََ ڈیڑھ دو صدی کےطویل و مسلسل تجربہ کےبعد مستشرقین نے محسوس کیا کہ ان کے طریق کار میں بنیادی غلطی تھی، جس کی وجہ سے ان کی جدوجہد کا پورا نتیجہ نہیں نکل رہا تھا، اور بعض اوقات اس کے خلاف اسلامی حلقوں میں شدید رد عمل اور اشتعال پیدا ہوجاتا تھا، جو تبلیغی و دعوتی نقطہ نظر سے خطرناک تھا، وہ برابر اپنی مساعی اور ان کے اثرات و نتائج کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے رہے، اب ان نتائج کی روشنی میں انھوں نےطے کیا کہ ان کو اپنے رویہ اور طریق کار میں بنیادی تبدیلی پیدا کرنی چاہئے اور بجائے مسلمانوں کو بدلنے کی کوشش کے اسلام کو جدید تعبیر پیش کرنے اور اصلاح مذہب (REFORM) کی
------------------------------
۱؎ ایضاََ ص۱۸۴