اس ابتدائی حالت اور دور طفولیت نے اس کا موقع دیا کہ زندگی اور اسلامی تعلیمات میں مناسبت اور ہم آہنگی پیدا ہوسکے لیکن اس مختصر ابتدائی وقفہ کے ختم ہوتے ہی اسلامی معاشرہ اور اسلام کے درمیان خلیج پڑ گئی اور اسلام زندگی کی رہنمائی کا سرچشمہ نہیں رہا۔ کلچرل، سیاسی، اقتصادی اور دوسرے خارجی محرکات و عوامل کا نتیجہ میں اسلامی معاشرہ کے اندر زندگی جتنی تبدیل ہوتی رہی اور ترقی کرتی رہی اتنا ہی اسلام اس بدلتی ہوئی اور ترقی کرتی ہوئی زندگی کا ساتھ دینے سے قاصر ہوتا چلا گیا۔ یہ خلیج برابر وسیع ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ خلافت اسلامی کے آخری مرکز (جدید ترکی) نے اس کا اعلان کر دیا کہ اسلام اب عام زندگی میں دخل نہ دے سکے گا اور اب کی جگہ فرد کے ضمیر میں ہوگی اور یہ فرد بغیر کسی اعلان اور جوش کے اپنی ذات کے لئے اس کا اظہار کر سکے گا۔" (۱)
"اسلامی تعلیمات کا نافذ نہ کر سکنا، اجتماعی ضرورت کا عین تقاضا ہے اور یہ نتیجہ ہے روز بروز بدلتی ہوئی زندگے کے ان حالات کا جن کو اسلام اپنی تعلیمات کی روشنی میں اپنے مطابق نہیں بنا سکا، اور ان کے اور اپنی تعلیمات کے درمیان ہم آہنگی نہیں پیدا کر سکا۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے پر زور دینے کے معنی اس زمانہ میں اس کے سوا کچھ اور نہیں ہیں کہ زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے۔ تمدن جدید کے وسائل سے فائدہ اٹھانے میں مسلمان دنیا سے پیچھے رہ جائیں، مسلمان ممالک میں غربت، بیماریوں اور جہالت کو بخوشی گوارا کیا جائے جیسا کہ اس وقت سعودی حکومت میں حال ہے، یہ وہ تنہا اسلامی ملک ہے جس نے سرکاری طور پر اسلام پر عمل کیا ہے، اس لئے وہ اس بات کا نمونہ ہے کہ اسلام پر عمل کرنے سے کیا نتائج پیدا ہوتے ہیں۔" (۲)
------------------------------
۱۔ الفکر الاسلامی الحدیث، ص ۱۸۱ - ۱۸۴۔
۲۔ ایضاً ص ۱۸۴۔