نہایت مہیب شکل میں پیش کرنے میں صرف کرتے ہیں، وہ خوردبیں سے دیکھتے ہیں، اور اپنے قارئین کو دوربین سے دکھاتے ہیں، رائی کا پربت بنانا ان کا ادنی کام ہے، وہ اپنے اس کام میں (یعنی اسلام کی تاریک تصویر پیش کرنے میں) اس سبک دستی، ہنر مندی اور صبر و سکون سے کام لیتے ہیں، جس کی نظیر ملنی مشکل ہے، وہ پہلے ایک مقصد تجویز کرتے ہیں، اور ایک بات طے کر لیتے ہیں کہ اس کو ثابت کرنا ہے، پھر اس مقصد کے لئے ہر طرح کے رطب و یابس، مذہب و تاریخ، ادب، افسانہ، شاعری مستند و غیر مستند ذخیرہ سے مواد فراہم کرتے ہین، اور جس سے ذرا بھی ان کی مطلب برآری ہوتی ہو (خواہ وہ صحت و استناد کے اعتبار سے کتنا ہی مجروح و مشکوک اور بے قیمت ہو) اس کو بڑے آب و تاب سے پیش کرتے ہیں، اور اس متفرق مواد سے ایک نظریہ کا پورا ڈھانچہ تیار کر لیتے ہیں، جس کا اجتماعی وجود صرف ان کے ذہن میں ہوتا ہے، وہ اکثر ایک برائی بیان کرتے ہیں، اور اس کو دماغوں میں بٹھانے کے لئے بڑی فیاضی کے ساتھ اپنے ممدوح کی دس (۱۰) خوبیاں بیان کرتے ہیں، تاکہ پڑھنے والے کا ذہن ان کے انصاف و وسعت قلب اور بے تعصبی سے مرعوب ہو کر اس ایک برائی کو (جو تمام خوبیوں پر پانی پھیر دیتی ہے) قبول کر لے، وہ کسی شخصیت یا دعوت کے ماحول، تاریخی پس منظر، قدرتی و طبعی عوامل و محرکات کا نقشہ ایسی خوبصورتی اور عالمانہ انداز سے کھینچتے ہیں (خواہ وہ محض خیالی ہو) کہ ذہن اس کو قبول کرتا چلا جاتا ہے، اور اس کے نتیجہ میں وہ اس شخصیت و دعوت کو اس ماحول کا قدرتی رد عمل یا اس کا فطری نتیجہ سمجھنے لگتا ہے، اور اس کی عظمت و تقدیس اور کسی غیر انسانی سرچشمہ سے اس کے اتصال و تعلق کا منکر بن جاتا ہے، اکثر مستشرقین اپنی تحریروں میں "زہر" کی ایک مناسب مقدار رکھتے ہیں، اور اس کا اہتمام کرتے ہیں کہ وہ تناسب سے بڑھنے نہ پائے اور پڑھنے والے کو متنفر اور بدگمان نہ کر دے۔ ان کی تحریریں زیادی خطرناک ثابت ہوتی ہیں اور ایک متوسط آدمی کا ان کی زد سے بچ کر نکل جانا مشکل ہے۔