ان مقاصد کے علاوہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض فضلاء مشرقیات و اسلامیات کو اپنے علمی ذوق و شعف کے ماتحت بھی اختیار کرتے ہیں، اور اس کے لئے اس دیدہ ریزی، دماغ سوزی اور جفاکشی سے کام لیتے ہیں جس کی داد نہ دینا ایک اخلاقی کوتاہی اور علمی ناانصافی ہے، ان کی مساعی سے بہت سے مشرقی و اسلامی علمی جواہرات و نوادر پردہ خفا سے نکل کر منظر عام پر آئے اور جاہل وارثوں اور ظالم کیڑوں کی دست برد سے محفوظ ہوگئے، متعدد اعلٰی اسلامی مآخذ اور تاریخی وثائق ہیں، جو ان کی محنت و ہمت سے پہلی مرتبہ شائع ہوئے۱؎ اور مشرق کے اہلِ علم نے اپنی آنکھوں کو روشن کیا۔
اس علمی اعتراف کے باوجود اس کے کہنے میں باک نہیں کہ مستشرقین عمومی طور پر اہلِ علم کا وہ گروہ ہے، جس نے قرآن و حدیث، سیرت نبوی، فقہ اسلامی اور اخلاق و تصوف کے وسیع مطالعہ سےحقیقی فائدہ نہیں اٹھایا، اور اس سےان کےقلب و دماغ پر کوئی بڑا انقلاب انگیز اثر نہیں پڑا، اس کی بڑی وجہ یہ ہےکہ نتائج ہمیشہ مقاصد کے تابع ہوتے ہیں، عام طور پر ان مستشرقین کا مقصد کمزوریوں کا تلاش کرنا اور دینی یا سیاسی مقاصد کے ماتحت ان کو نمایاں کرنا اور چمکانا ہوتا ہے، چنانچہ صفائی کے انسپکٹر کی طرح ان کو ایک گلزار و جنت نشاں شہر میں صرف غیر صحتمند مقامات ہی نظر آتے ہیں۔
مستشرقین کا تاثر صرف ان کی ذات تک محدود نہیں، اگر تنہا یہ پہلو ہوتا تو وہ ہماری توجہ کا مرکز اور ہماری اس بحث کا موضوع نہ ہوتا، مسئلہ کا زیادہ سنگین اور دورس پہلو یہ ہے کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو معقول وغیر معقول طریقہ پر ان کمزوریوں کی نشاں دہی، اور ان کو
------------------------------
۱؎ طبقات ابن سعد، تاریخ طبری، تاریخ کامل ابن اثیر، انساب سمعانی، فتوح البلدان بلاذری، کتاب الہند للبیرونی وغیرہ پہلی مرتبہ یورپ سے شائع ہوئیں پھر ان کے متعدد ایڈیشن مصر سے نکلے۔