ہنکایا جاتا ہے۔
ہندوستان میں انگریزی حکومت کی کامیابی اور استحکام کا راز سول سروس کے طبقہ اور حکام کی مغربی تربیت، سلیقہ مندی اور اطاعات شعاری میں تھا، انہیں نے اس ملک کا سانچہ بنایا اور سو (۱۰۰) برس تک کامیابی کے ساتھ اس ملک کو اس کے غیر ملکی حکمرانوں کے منشا اور مزاج کے مطابق چلاتے رہے۔ اب بھی اسلامی ممالک کے رخ کی تبدیلی اور اسلامی فکر اور اسلامی زندگی کی طرف ان کو لے چلنے کی تدبیر یہی ہے کہ اس طبقہ کی اسلامی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے، جس کے ہاتھ میں ملک کی رہنمائی اور اس کی زمام کار آنے والی ہے، اور اس نظام تعلیم کو درست کیا جائے، جو اس طبقہ کو تیار کرتا ہے۔
نظام تعلیم کی یہ بنیادی تبدیلی اور اس کی اسلامی تشکیل اگرچہ نہایت ضروری ہے، مگر دیر طلب اور طویل کام ہے، اور اس کے لئے وسیع و عظیم صلاحیتوں اور وسائل کی ضرورت ہے۔ جدید اسلامی نسل کا معاملہ ایک دن کی تاخیر اور التواء کا روادار نہیں، مندرجہ بالا کام کی تکمیل تک (اور حقیقتاً اس کی موجودگی میں بھی) یہ کام ان اسلامی اقامت خانوں (MUSLIM HOSTELS) سے لیا جا سکتا ہے، جن میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے مسلم طلبا قیام کریں اور وہاں اسلامی تربیت اسلامی زندگی اور ماحول کے قیام اور صالح ذہنی و روحانی غذا کے مہیا کرنے کا خاص اہتمام کیا جائے۔ اقامت خانوں کا طلبہ کی زندگی و سیرت اور ان کے اخلاق و رجحانات کی تشکیل میں جو گہرا حصہ ہے، اس سے وہ حضرات بے خبر نہیں جو اس نسل کا کچھ تجربہ رکھتے ہیں، اسلامیہ اسکول اور کالج (جن پر ملت کے سرمایہ اور توجہ کا قیمتی حصہ صرف ہو چکا ہے) بہت جگہ حالات کی تبدیلی سے اپنی افادیت کھو چکے ہیں، پھر اکثر وہ "کوہ کندن و کاہ برآوردن" کا مصداق ثابت ہوتے ہیں، ان کے برعکس اقامت خانوں کی تاسیس و انتظام کی مشکلات کم اور فوائد