تعلیم پائی، یا مغربی زبانوں میں اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے) دماغوں میں اسلام کے ماضی کی طرف سے بدگمانی، اس حال کی طرف سے بیزاری، اس کے مستقبل کی طرف سے مایوسی، اسلام و پیغمبر اسلام اور اسلامی مآخذ (SOURCES) کے بارہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور "اصلاح مذہب" "اصلاح قانون اسلامی" کےاس طرز پر آمادہ کرنے میں جس کانمونہ اوپر گزر چکا ہے، بہت بڑا حصہ ان علماء مغرب کا ہے جنھوں نے اسلامیات کے مطالعہ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردی ہیں، اور ان کو عام مشتشرقین (ORIENTALIST) کہا جاتا ہے، اور جو اپنے علمی تبحر، تحقیقی انہماک اور مشرقیات سےگہری واقفیت کی بنا پر مغرب و مشرق کے علمی و سیاسی حلقوں میں بڑی عظمت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، اور ان مشرقی اسلامی مباحث و مسائل میں ان کی تحقیق و نظریات کو حرفِ آخر اور قولِ فیصل سمجھا جاتا ہے۔
اس استشراق کی تاریخ بہت پرانی ہے، وہ واضح طریقہ پر تیرھویں صدی مسحیی سے شروع ہوجاتی ہے، اس کے محرکات دینی بھی تھے، سیاسی بھی، اقتصادی بھی، دینی محرک واضح ہے، اس کا بڑا مقصد مذہبِ عیسوی کی اشاعت و تبلیغ اور اسلام کی ایسی تصویر پیش کرنا ہے کہ مسیحیت کی برتری اور ترجیح خود بخود ثابت ہو اور نئے تعلیم یافتہ اصحاب اور نئی نسل کے لئے مسیحیت میں کشِش پیدا ہو، چنانچہ اکثر استشراق اور تبلیغِ مسیحیت ساتھ ساتھ چلتےہیں، مستشرقین کی بڑی تعداد اصلاََ پادری ہے، ان میں سےایک بڑی تعداد نسلاََ و مذہباََ یہودی ہے۔
سیاسی محرک یہ ہےکہ یہ مستشرقین عام طور پر مشرق میں مغربی حکومتوں کا ہراول دستہ(PIONEERS) رہےہیں، مغربی حکومتوں کو علمی کمک اور رسد پہونچانا ان کا کام ہے، وہ ان مشرقی اقوام و ممالک کے رسم و رواج، طبیعت و مزاج، طریق ماند و بود اور زبان ادب،