یا خارجی مؤثرات و واقعات نے ان کے نور ایمان اور فہم اسلام کی حفاظت کی، یا ان کے اندر مغرب کے تہذیب و فکر کے خلاف کوئی شدید رد عمل پیدا ہوا، عام طور پر عرب اور عجمی ممالک کے ذہین مسلم نوجوانوں کو (جو اپنی قوم کا جوہر اور سرمایہ تھے) اس نظام تعلیم کے تیزاب نے اتنا بدل دیا کہ نہ اسلام (اپنی صحیح شکل و صورت میں) ان کے جدید ذہن میں فٹ ہوسکتا ہے، اور نہ وہ عام اسلامی معاشرہ میں فٹ ہوتے ہیں، اور بقول اقبال۔ ع
فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی
مذہب ایک پرائیوٹ معاملہ ہونے پر اصرار جس کو سیاست و ریاست میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں، دین اسلام کے ساتھ مسیحی کلیسا کا سا معاملہ، مذہب و سیاست کی تفریق کا نظریہ مذہب کو ترقی، اکتشاف و تحقیق کی راہ میں حارج اور مخل سمجھنے کا خیال، علماء اسلام کو مسیحی کلیسا کے ان نمائندوں کی صف میں کھڑا کرنا جو قرون وسطیٰ میں مطلق العنان اقتدار کے مالک تھے، عورت کو بالکل مرد کے مساوی سمجھ کر اس کو زندگی کے تمام میدانوں میں دوڑنے اور حصہ کینے کا اہل اور مستح سمجھنا، پردہ کو (خواہ وہ کسی شکل میں ہو) مشرق کے قدیم حرم کے نظام کی یادگار اور مردوں کے صنفی استبداد کا نشان سمجھنا اور اس کے ختم کرنے کو اصلاح و ترقی کا پہلا قدم تصور کرنا، اسلام کے قانون میراث اور ضابطہ نکاح و طلاق کو قروم وسطیٰ کے مسلمان فقیہوں کا اجتہاد اور اس محدود اور ابتدائی معاشرہ کا طبعی نتیجہ سمجھنا جو ساتویں آٹھویں صدی مسیحی میں قائم تھا اور اس کی تبدیلی و ترمیم اور مغربی اصولوں اور معیاروں کے مطابق بنانے کے کام کو وقت کا ایک ضروری فریضہ قرار دینا، سود، شراب، قمار، جنسی تعلقات میں آزادی و بے قیدی کو زیادہ معیوب نہ سمجھ کر نظر انداز کرنا، قوم پرستی، قدیم (ماقبل اسلام) تہذیبوں اور زبانوں کے احیاء کا جذبہ اور لاطینی رسم الخط کی افادیت و اہمیت پر یقین، یہ اور اس طرح کے بہت سے رجحانات