زبان و ادب سے لے کر فلسفہ و نفسیات تک اور علوم عمرانیہ سے لے کر معاشیات و سیاسیات تک سب کو ایک نئے سانچہ میں ڈھالا جائے، مغرب کے ذہنی تسلط کو دور کیا جائے، اس کی معصومیت و امامت کا انکار کیا جائے، اس کے علوم و نظریات کو آزادانہ تنقید اور جرات مندانہ تشریح (پوسٹ مارٹم) کا موضوع قرار دیا جائے (۱)۔ مغرب کی سیادت و بالاتری سے عالم انسانی کو جو عظیم الشان نقصانات پہونچے ان کی نشاں دہی کی جائے، غرض مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے علوم و فنون کو پڑھایا جائے اور اس کے علوم و تجارب کو مواد خام (RAW MATERIAL) فرض کر کے اپنی ضرورت اور اپنے قد و قامت اور اپنے عقیدہ و معاشرت کے مطابق سامان تیار کیا جائے۔
اس عظیم کام میں خواہ کتنی ہی مشکلات ہوں اور اس میں خواہ کتنی دیر لگے، عالم اسلام میں تجدد و مغربیت کی اس عالمگیر رو کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں جو اسلام کے وجود ملی اور اس کے اجتماعی ڈھانچہ کو چیلنج کر رہی ہے، اور اس کے لئے شدید خطرہ بلکہ موت و حیات کا مسئلہ بن گئی ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان عوام کا خلوص، ان کی قربانیاں، ان کا جذبہ اور ان کی قوت عمل (جس کے سر ان ملکوں کی آزادی اور سلطنتوں کے قیام کا سہرا ہے، اس روشن خیالی و تجدد کی آگ کا حقیر ایندھن بن کر رہ گئی ہے، اور یہ سادہ دل، بے زبان، گرمجوش اور مخلص عوام، ان قائدین اور حکمرانوں کے ہاتھ میں بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ بن کر رہ گئے ہیں، جن کو جس منزل کی طرف چاہا جاتا ہے، خاموشی کے ساتھ
------------------------------
۱۔ ڈاکٹر رفیع الدین صاحب رحمہ اللہ کے فاضلانہ کتاب "قرآن اور علم جدید" اس کا اچھا نمونہ ہے۔ محمد اسد صاحب کی (ISLAM AT THE CROSSROADS) مولانا ابو الاعلٰی مودودی کی "تنقیحات" اور "پردہ" اور سید قطب کی "العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام" میں بھی مغربی فکر اور مغربی افکار و اقدار پر تنقیدی مواد ملتا ہے۔