"ممالک اسلامیہ میں آزاد خیالی اور حریت پسندی کی جو تحریک چل رہی ہے، اس کا ایک اہم سبب اور عامل (FACTOR) مغرب کا نفوذ بھی ہے، یورپ میں حریت پسندی کی تحریک انسیوں صدی کے اواخر سے لے کر پہلی جنگ عظیم تک اپنے نقطہ عروج پر رہی ہے، یہی معاملہ یورپ کے تفوق اور ترقی کا ہے، بہت سے مسلمان نوجوانوں نے مغرب کا سفر کیا اور یورپ کی اسپرٹ اور اس کے اقدار سے انہوں نے واقفیت حاصل کی اور ایک حد تک وہ ان کے گرویدہ ہوئے، یہ بات ان طلباء پر خصوصیت کے ساتھ صادق آتی ہے جو روز افزوں تعداد کے ساتھ یورپ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم و تربیت حاصل کرتے رہے ہیں (ان کے ذریعہ) مغرب کی بہت سے چیزیں دنیائے اسلام میں آئیں، اس کام میں پیش پیش وہ تعلیمی ادارے تھے جنہوں نے ایک پوری نسل کی تربیت کی اور اس کو مغرب کے جدید طرز کے حوالہ کر دیا۔ مغرب سے آنے والی چیزوں میں وہ متعدد نئے خیالات اور کم از کم اتنے ہی زیادہ اہم، نازک اور باریک خام ذہنی اندازے اور نئے میلانات تھے، جن کو یہ مختلف تعلیمی اسٹائل پھیلانے کے ذمہ دار ہیں، مزید برآں مغرب کے دوسرے قانونی، سیاسی، اجتماعی اور دوسرے قسم کے جدید اداروں کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ، ان میں سے بعض تو زبردستی مسلط کئے جاتے ہیں اور بعض کے لئے کوشش کی جاتی ہے، بعض مسلمانوں نے اس کا مقابلہ کیا، بعض نے ان کا خیر مقدم کیا، بعض کو ایسی تربیت دی گئی یا انہوں نے خود تدریجی طور پر ان کو خوس آمدید کہا۔ انجام کار بہت سے مسلمان ان نظریات اور اداروں کو مسلمہ حقائق سمجھنے لگے اس طرح سے مغربیت کی کاروائی تیزی اور طاقت کے ساتھ جاری رہی۔" (۱)
لیکن ان چند مستثنیٰ شخصیتوں (اقبال و محمد علی وغیرہ) کو چھوڑ کر جن کی "فطرت
------------------------------
۱۔ P 64