رکھتی ہے، جنھوں نے ایک راسخ العقیدہ دینی ماحول میں تربیت پائی تھی، پھر مغربی تعلیم کے بہترین ہندوستانی مرکزوں میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا، وہ اپنی خود نوشت سوانح میں لکھتے ہیں:
"حکومت برطانیہ مکمل مذہبی غیر جانبداری کی قائل اور علمبردار تھی، اور مذہبی حتیٰ کہ اخلاقی تعلیمات کو بھی بالکلیہ بے دخل کر کے اس نے اس (پالیسی) کو عملی جامہ بھی پہنایا، صرف وہ معلومات، جن کو لڑکے از خود انگریزی اور مشرقی زبانوں کی درسی کتابوں میں پائے جانے والے لٹریچر سے اخذ کر لیں، رہ گئیں۔
دوسری طرف وہ تعلیمی نظریہ جو حکومت نے ہندوستانی نوجوانوں کے لئے بہم پہونچایا تھا، "جدید" تھا، لیکن اپنی تمام تخریبی صلاحیت کے ساتھ اس کا سارا زور اس طرف تھا کہ طالب علم کے اندر ایک بیجا ہمہ دانی کا احساس پرورش پائے اور صدیوں پرانے توہمات کے ساتھ ساتھ روایت اور حجت و سند کی ساری عظمت کو ختم کر دے۔ اس میں شبہہ نہیں کہ رفتار زمانہ کے ساتھ یہ تعلیم حقیقت کی تلاش و جستجو کے ایک مخلصانہ جذبہ کو بیدار کرنے کا سبب بنی، لیکن اپنی پہلی یورش میں یہ خاص طور پر تخریبی ہی رہی ہے اور ختم کئے ہوئے توہمات کے بدلہ میں جو تھوڑا بہت اس نے دیا وہ بذات خود بے بنیاد عقائد اور توہمات پر مبنی تھا، ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ تھوڑا بہت "جدید" تھا۔" (۱)
ISLAM IN MODERN HISTORY کا مصنف (W. C. SMITH) جو اسلامی ممالک میں کام کرنے والے مختلف رجحانات اور وہاں کے مختلف طبقوں سے متعلق تازہ معلومات رکھتا ہے، اسلامی ممالک میں جدید مغربی تعلیم اور اس کے مرکزوں کے گہرے ذہنی اثر کا اعتراف کرتا ہے، وہ ممالک اسلامیہ کی حریت پسند تحریک (LIBERALISM) کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
------------------------------
۱۔ MY LIFE, A FRAGMENT, P 23, 24