کار فرما ہوتی ہے، ان کےنزدیک ان کےمستقبل کی کامیابی صرف اس میں ہے کہ وہ مغربی معیار کے مطابق اور مغرب کے افکارو اقدار سے ہم آہنگ ہوں۔"۱؎
آگےچل کروہ بڑی جرات کے ساتھ کہتےہیں:-
اگر مسلمانوں نے زمانہ ماضی میں علمی تحقیق و تفکر کے کام کو نظر انداز کرکے غلطی کی تواس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس غلطی کی اصلاح کا طریقہ یہ نہیں ہےکہ وہ مغرب کا نظامِ تعلیم جوں کاتوں قبول کرلیں، ہماری پوری تعلیمی پسماندگی اور علمی بےبضاعتی اس مہلک اثر کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی جو مغرب کےنظامِ تعلیم کی اندھی تقلید، اسلام کی مخفی دینی طاقتوں پر ڈالے گی، اگر ہم اسلام کے جوہر کو یہ سمجھ کر محفوظ رکھنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک مستقل علمی و تہذیبی عنصر ہے، تو ہمارے لئے ضروری ہوگا کہ ہم مغربی تمدن کےذہنی ماحول اور فضا سے دور دور رہیں، وہ فضاجو ہمارے معاشرہ اور ہمارےمیلانات پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے تیار ہے۔ مغرب کے طور طریق اور اس کےلباس و مظاہرِ زندگی کو قبول کر لینے سے مسلمان آہستہ آہستہ مغرب کے نقطئہ نظر کو قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، خارجی مظاہر کی تقلید اس ذہنی رحجان تک پہنچا دیتی ہے۔"۲؎
اس نتیجہ کی پیشن گوئی ان بعض مفکرین نے بھی کی جو ایشائی اور مشرقی ممالک میں اس نظام تعلیم کو رواج دینے والے تھے۔ مشہور انگریز اہلِ قلم لارڈمیکالے نے جو سنہ۱۸۳۵ء میں اس تعلیمی کمیٹی کےصدر تھے۔جو یہ طےکرنے کے لئے بیٹھی تھی کہ ہندوستانیوں کو مشرقی زبانوں کی جگہ انگریزی زبان میں تعلیم دی جایا کرے، اپنی رپورٹ میں لکھا تھا:-
"ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہئےجو ہم میں اور ہماری کروڑوں رعایا کے درمیان
------------------------------
۱؎ 97.P ۔۲؎ 100.P