ترجمان ہو، یہ ایسی جماعت ہونی چاہئے جو خون و رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو، مگر مذاق اور رائے، الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو۔"۱؎
یہ مغربی نظامِ تعلیم درحقیقت مشرق اوراسلامی ممالک میں ایک گہرے قسم کی لیکن خاموش نسل کشی(GENOCIDE) کےمرادف تھا، عقلاء مغرب نےایک پوری نسل کو جسمانی طور پر ہلاک کرنے کے فرسودہ اور بدنام طریقہ کو چھوڑ کر اس کواپنےسانچہ میں ڈھال لینے کا فیصلہ کیا اور اس کام کے لئے جابجا مراکز قائم کئےجن کو تعلیم گاہوں، اور کالجوں کے نام سے موسوم کیا، اکبر مرحوم نے اس سنجیدہ تاریخی حقیقت کو اپنے مخصوص ظریفانہ انداز میں بڑی خوبی سے ادا کیا ہے، ان کا مشہور شعر ہے؎
یوں قتل سےبچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کا کالج کی نہ سوجھی
ایک دوسرے شعرمیں انھوں نے مشرقی و مغربی حکمرانوں کافرق اس طرح بیان کیا ہے؎
مشرقی تو سرِد شمن کوکُچل دیتے ہیں
مغربی اس کی طبیعت کوبدل دیتے ہیں
اس سے کئی برس بعد اقبال نے(جنھوں نےاس نظامِ تعلیم کا خود زخم کھایا تھا) اس حقیقت کوزیادہ سنجیدہ انداز میں اس طرح پیش کیا؎
مباشا یمن ازاں علمے کہ خوانی
کہ ازوےروحِ قومے می تواں کُشت۲؎
تعلیم جو قلبِ ماہیت کرتی ہے، اور جس طرح ایک سانچہ توڑ کر دوسرا سانچہ بناتی ہے، اس کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:-
------------------------------
۱؎ تاریخ التعلیم از میجر باسو ص۸۷ ۲؎ارمغان حجاز ص۱۴۴