ربانی تمدن کا نمائدہ سمجھیں جس کو اسلام لے کر آیا، اس میں ذرا بھی گنجائش نہیں کہ ان روشن خیالوں کے اندر دینی عقائد برابر مضمحل ہوتے جا رہے ہیں جنہوں نے مغربی بنیادوں پر نشوونما حاصل کیا ہے۔" (۱)
پھر وہ صاحب تعلیم کے مختلف اجزاء کے متعلق علیٰحدہ علیٰحدہ گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"مغربی ادبیات کی تعلم کا انجام اس شکل میں جو اس وقت اکثر اسلامی اداروں میں رائج ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اسلام مسلمان نوجوانوں کی نگاہ میں ایک اجنبی چیز بن جائے، یہی بات بلکہ اس سے بہت زیادہ یورپ کے فلسفہ تاریخ پر صادق آتی ہے، اس لئے کہ یورپ کا قدیم نظریہ تاریخ یہ ہے کہ دنیا میں دو ہی گروہ ہیں، رومی (ROMANS) اور وحشی (BARBARIANS) تاریخ کو اس طرح پیش کرنے کا ایک پوشیدہ مقصد ہے وہ یہ کہ یہ ثابت کیا جائے کہ مغربی اقوام اور ان کا تمدن ہر اس چیز سے زیادہ ترقی یافتہ ہے، جس کا اس وقت تک وجود ہو یا آئندہ کبھی دینا میں وجود ہو سکتا ہے، اس سے اہل مغرب کے حصول اقتدار کی کوشش اور مادی طاقت کا اخلاقی جواز پیدا ہوتا ہے اور وہ حق بجانب ثابت ہوتی ہے۔" (۲)
آگے چل کر وہ لکھتے ہیں :
تاریخ کی اس طرح کی تعلیم نوجوانوں کے دماغ میں اس کے علاوہ کوئی اور اثر نہیں چھوڑ سکتی کہ وہ احساس کہتری میں مبتلا ہوں اور اپنی پوری ثقافت (کلچر) اور اپنے مخصوص تاریخی عہد کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگیں اور مستقبل میں ان کے لئے ترقی و خدمت کے جو وسیع اور روشن امکانات ہیں ان کا انکار کرنے لگیں، اس طرح وہ ایک ایسی منظم تربیت حاصل رکتے ہیں جس میں اپنے ماضی اور اپنے مستقبل کی حقارت پورے طور پر
------------------------------
۱۔ ISLAM AT THE CROSSROADS, P. 03, 04.
۲۔ P 95۔