پھل لائے گا، انسانوں کو اس کا اختیار ہے کہ درخت نہ لگائیں، یا اس کو پانی نہ دیں، یا جب تیار ہو تو اس کی ہستی کو ختم کردیں، مگر اس کا اختیار نہیں کہ ایک توانا و تندرست، سرسبز شاداب درخت کو اپنےنوعی وجود و شخصیت کےاظہار اور وقت پر پھل لانے سے روک سکیں۔
یہی معاملہ مغربی نظامِ تعلیم کا ہے، وہ اپنی ایک روح اور اپنا ایک منفرد ضمیر رکھتا ہے، جو اپنے مصنفین اور مرتبین کے عقیدہ و ذہنیت کا عکس، ہزاروں سال کے طبعی ارتقا کا نتیجہ، اہلِ مغرب کے مسلّمہ افکار و اقدار کا مجموعہ اور ان کی تعبیر ہے، یہ نظامِ تعلیم جس کسی اسلامی ملک یا مسلمان سوسائٹی میں نافذ کیا جائے گا تو اس سے ابتداءََ ذہنی کشمکش، پھر اعتقادی تزلزل، پھر ذہنی اور بعد میں (اِلّاماشاءاللہ) دینی ارتداد قدرتی ہے، ایک سلیم الطبع مغربی مبصّر۱؎ نےجس کومغرب کےنظامِ تعلیم اورمشرق میں اس کےنتائج کا وسیع تجربہ ہےصحیح لکھا ہے:-
"ہم نےگذستہ صفحات میں اس بات کی تائید میں چند اسباب و دلائل پیش کئےہیں کہ اسلام اور مغربی تمدن جو زندگی کے دو متضاد نظریوں پر قائم ہیں، ایک دوسرےکے ساتھ مل کرنہیں رہ سکتے، جب واقعہ یہ ہے تو ہم کیسے اس بات کی توقع کرسکتے ہیں کہ مسلمانوں کی نئی نسل کی مغربی بنیادوں پرایسی تعلیم و تربیت (جو مجموعی طور پر یورپ کےعلمی و ثقافتی تجربوں اور ان کےتقاضوں پر مبنی ہو) مخالفِ اسلام اثرات سے پاک ہوسکتی ہے۔
ہماری اس توقع کے لئےکوئی وجہ جواز نہیں، اگر ہم بعض ایسے غیر معمولی حالات کا استثناء کردیں، جن میں کسی انتہا درجہ کے روشن اور فائق دماغ کے لئے ایسا ممکن ہوا کہ وہ اپنے درسی مضامین سے متاثر نہیں ہوسکا تو بھی عام اصول یہی رہےگا کہ مسلمانوں کی نئی نسل کی مغربی تعلیم و تربیت ان کو اس قابل نہیں رکھے گی کہ وہ اپنےکو مخصوص
------------------------------
۱؎ محمداسد،سابق(LEOPOLD WEISB)