عکس اور پرتو ہوتا ہے، جو اس نظام کو ایک مستقل شخصیت ایک مستقل روح اس کے پورے ڈھانچہ، ادب و فلسفہ، تاریخ، فنون لطیفہ، علوم عمرانیہ، حتی کہ معاشیات و سیاسیات میں اس طرح سرایت کر جاتی ہے کہ اس کو اس سے مجرد کرنا بڑا کٹھن کام ہے، یہ بہت بڑے صاحب اجتہاد اور اعلٰی تنقیدی صلاحیت رکھنے والے کا کام ہے کہ اس کے مفید اجزا کو مضر اجزا سے الگ کر کے "خذ ما صفا ودع ماکدر" پر عمل کرے، اور اصل و زوائد میں فرق کر کے اس کا جوہر اور اس کی روح لے لے۔ طبعی و تجربی (سائنٹفک) علوم میں یہ کام بہت زیادہ مشکل نہیں، لیکن ادب و فلسفہ اور علوم عمرانیہ میں یہ کام بڑا مشکل اور نازک ہے، خاص طور پر جب کوئی ایسی قوم جو متعین و محکم عقائد، مستقل فلسفہ حیات اور مسلک زندگی، اپنی ایک مستقل تاریخ (جو محض ماضی کا ایک ملبہ (DEBRIS) نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لئے نشان راہ کی حیثیت رکھتی ہے، اور جس کے لئے پیغمبر کی شخصیت اور اس کا زمانہ آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے، جب کسی ایسی قوم یا دور کا نظام تعلیم قبول کرتی ہے، جو اساس و بنیاد اور مثال و معیار میں اس سے مختلف بلکہ اس کی ضد واقع ہوئی ہے، تو قدم قدم پر تصادم ہوتا ہے، اور ایک کی تعمیر دوسرے کی تخریب اور ایک کی تصدیق دوسرے کی نفی و تردید، ایک کا احترام دوسرے کی تحقیر کے بغیر ممکن نہیں، ایسی حالت میں پہلے ذہنی کشمکش، پھر عقائد میں تزلزل، پھر اپنے دین سے انحراف اور قدیم افکار و اقدار کے بجائے جدید افکار و اقدار کا آنا ضروری ہے۔ یہ سب ایک قدرتی امر ہے اور بالکل قدرتی امور کی طرح اس کا پیش آنا ضروری ہے، کسی قسم کی خوش نیتی، ضمیر کی خلش، سرپرستوں کی خواہش، خارجی و جزئی انتظامات اس امر کے وقوع میں حارج نہیں ہوسکتے، اس کی رفتار کو سست اور اس کے وقوع کو مؤخر کرسکتے ہیں، ملتوی نہیں کرسکتے، درخت اگر اپنے طبع نظام سے نشوونما پائے تو وہ اپنے برگ و بار ضرور پیدا کرے گا، اور وقت پر