تعلیم کے میدان میں اسرائیل کی پالیسی اور اس کا طرز عمل کیا ہے؟ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل معلومات سے ہوگا، جو مشرق وسطیٰ کے ماہرین تعلیم کی مستند کتابوں اور رپورٹوں سے ماخوذ ہیں۔
ڈاکٹر روڈر، ماتھیوز اور ڈاکٹر متی عقراوی اپنی کتاب "التربیۃ فی الشرق العربی" میں رقم طراز ہیں کہ:
"فلسطین کے اسرائیلی اسکول میں سب سے اہم اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ سارے مضامین میں تعلیمی زبان (انگریزی، فرانسیسی اور عربی) کے علاوہ عبرانی زبان ہے اور تعلیم کے سارے مراحل میں مذہبی تعلیم کا سخت اہتمام ہے، مذہبی تعلیم کو صیہونیت کی بنیاد اور اس کی ترقی کا راز قرار دیا جاتا ہے۔"
اس کے بعد انہوں نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ:
"اسرائیل میں ہر قسم کے اسکول اور ان کے رحجانات ان پارٹیوں کے تابع ہیں، جن سے ان اسکولوں کے طلباء کے سرپرستوں کا تعلق ہے۔ یہ پارٹیاں اپنے تعلیمی، مذہبی اور سیاسی کردار اور رحجان کے اختلاف کے باوجود اس بنیادی فکر پر متفق ہیں، اور مذہبی تربیت کا خاص اہتمام و خیال رکھتی ہیں اور بعض پارٹیوں کا خیال ہے کہ یہود کی مذہبی روایات ہی وہ مشعل راہ ہے جس سے نظام تعلیم کو روشنی ہ ہدایت حاصل کرنی چاہیے اور بعض پارٹیاں اساتذہ کے لئے یہ ضروری قرار دیتی ہیں کہ وہ روایات پرست ہوں، یعنی وہ لوگ یہود کی اصل روایات کے پابند ہوں۔"
رسالہ "فلسطین" نے فلسطین ہائیر کمیٹی کی رپورٹ "تحقیق و مطالعہ" سے اقتباس کر کے ایک مضمون "اسرائیل میں اعلیٰ تعلیم" کے عنوان سے شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ: