عوام معاشی لحاظ سے اور معیار زندگی کے اعتبار سے بہت پست زندگی گزارتے ہیں، جن ممالک میں آبادی زیادہ ہے، ان کا معیار زندگی اور بھی پست اور ان کی معاشی حالت اور بھی خستہ اور زبوں ہے، لیکن ان ممالک کی حکومتیں ترقی یافتہ اور مرفہ الحال مغربی حکومتوں کی پوری تقلید کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہر ملک میں بضرورت و بلا ضرورت سفارت خانے اور قونصل خانے قائم کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے، پھر یہ سفارت خانے وہ تمام طریقے اختیار کرتے ہیں، جو ان مغربی ممالک کے (جو دینی و اخلاقی حدود و قیود سے یکسر بے نیاز ہیں) سفارت خانے اختیار کیا کرتے ہیں، مسلم و عرب ممالک کے ان سفارت خانوں کی طرف سے مختلف تقریبات کے لئے شاہانہ دعوتوں اور کاک ٹیل پارٹیوں (COCKTAIL PARTIES) کا انتظام کیا جاتا ہے، جن میں غریبوں سے جمع کی ہوئی دولت پانی کی طرح بہائی جاتی ہے، سفارت خانوں کی طرف سے ان تقریبات میں شراب بالعموم اور کہیں کہیں "لحم خنزیر" بھی پیش کیا جاتا ہے، بالعموم ان سفارت خانوں کو تبلیغ اسلام اور اپنے اخلاقی اصول و معیار کے مظاہرہ اور ان ممالک کے مسلمانوں کی ہمت افزائی اور دینی رہنمائی سے کوئی سر و کار نہیں ہوتا۔ اور ان سے بہت کم علمی و ثقافتی فائدہ پہونچتا ہے۔
بہت سے مسلم ممالک کے سربراہ (حتیٰ کہ جنہوں نے جمہوریت اور اشتراکیت کو اصول و دستور کی حیثیت سے اختیار کیا ہے) سخت مسرفانہ زندگی گزارتے ہیں، ان کے مصارف شاہانہ ہیں، اور ان کے دورے قیصر و کسریٰ اور زار روس کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ ان کی معاشرت اور طرز رہائش کو دیکھ کر الف لیلہ کے دور کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، اور ہرگز یہ یقین نہیں آتا کہ یہ غریب و خسہ حال ممالک کے سربراہ و ذمہ دار اور اشتراکیت و