مسیحی مستشرقین کی تحریروں میں جو مشینری اسپرٹ، جنگ صلیبی کی یادوں کی تلخی، ترکوں سے عصبیت، ان کے خلاف انتقامی جذبہ نمایاں ہو کر سامنے آ جاتا ہے، وہ کسی صاحبِ نظر سے مخفی نہیں ہے، ان مستشرقین میں (جو عالم اسلام کے لئےسیکولرازم اور اسلامی شریعت و قانون سے بغاوت اور بے اطمینانی کے سب سے بڑے مبلغ ہیں) بڑی تعداد یہودیوں کی ہے، جو اپنے مذہب اور ہم مذہبوں کے بارے میں سخت قدامت پسند، احیاء پرست اور غیر روادار واقع ہوئے ہیں، اسرائیل کی حکومت خود خالص مذہبی بیناد پر قائم ہوئی ، اس نے ریاست کے دستور سے لے کر روزمرہ کی زندگی تک اور مذہبی فرائض و احکام سے لے کر سیاسیات و اقتصادیات کے میدان تک جس طرح تورات کی تعلیمات کو دانتوں سے مضبوط پکڑا ہے اور اس بارے میں لکیر کی فقیر ثابت ہوئی ہے وہ عالم اسلام کے لیے صرف درس عبرت ہی نہیں بلکہ تازیانہ عبرت بھی ہے، اور اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ روشن خیالوں کے منہ میں دو زبانیں ہوتی ہیں، ایک دوسروں سے گفتگو کے لیےاور ایک اپنوں سے بات چیت کرنے کے لیےاور سیکولرزم بلکہ الحاد و مذہب دشمنی کی ساری تبلیغ بھولے بھالے اسلامی ممالک کے لیے ہے، جنہوں نے نئی نئی آزادی حاصل کی ہے۔ یہاں پر ایک سابق کمیونسٹ عرب کے مضمون کے کچھ اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں جس نے عرصہ تک یہودی کمیونسٹوں کے دوش بدوش کام کیاہے، وہ لکھتا ہے: ۔
" عالم عربی کے قلب میں تورات کے ایک نبی کے نام پر ایک حکومت قائم ہوئی ہے، اس کا کوئی دستور نہیں، کیونکہ تمام مذہبی پارٹیاں تورات ہی کو دستور قرار دینے پر مصر ہیں، اس میں سنیچر کے دن کام کرنا قانوناً ممنوع ہے ، اس سے اس کی اقتصادیات اور عالمی بینکوں سے اس کے تعلقات میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا جو اتوار کو بند