تعلیمی ادارے قائم کیے اور تعلیم بالغان کے لیے شبینہ مراکز کھولے۔
کرنل قذافی کے ان اصلاحی اقدامات اور ابتدائی عہد میں مذہبی رجحانات کی وجہ سے مغربی صحافت نے ان کی طرف خاص توجہ کی ان کو کٹر مذہبی لیڈر کی حیثیت سے مغربی پریس نے پیش کرنا شروع کیا اور ان کے ذریعہ اسلام کے احیاء کا پروپیگنڈہ زور و شور سے شروع کیا گیا۔
یہ تعجب کی بات ہے کہ عیسائیوں کے خلاف کرنل قذافی کی کارروائیوں اور بعض مغربی ملکوں خاص طور پر برطانیہ اور امریکہ سے فوجی معاہدوں کی منسوخی کے باوجود مغربی پریس میں ان کے خلاف نفرت یا ناگواری ظاہر نہیں کی گئی، اس کے برخلاف ان کی شخصیت کو نمایاں کرنے اور مذہبی حلقوں میں ان کی اہمیت کو بڑھانے میں مغربی پریس نے اہم رول ادا کیا، بعض مغربی کالم نویسوں نے انہیں اِس عہد کا محمد تک قرار دیا۔
کرنل قذافی بعض طبعی وجوہات کی بنا پر شروع سے غیر متوازن، انتہا پسندانہ اقدامات کرنے کی وجہ سے پریس کی توجہ کا مرکز بنے رہے، اپنے ذاتی خیال کے مطابق اسلام کے احیاء کا غیر معمولی شوق اور اس کے علمبردار بننےوجہ سے مختلف عالمی کانفرنسوں اور عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ڈائلاگ (حوار) میں شرکت اور مستشرقین سے رابطہ کی وجہ سےبہت جلد اُن کے انقلابی افکار کا دائرہ سیاست سے ہٹ کر دینی فکر میں انقلاب تک وسیع ہوگیا۔
سیاسی میدان میں جو اقدامات مختلف موقعوں پر ان سے ظاہر ہوئے انہی سے ان کے عدم توازن اور ذہنی اضطراب کا اندازہ ہو تا ہے، 1971ء میں لیبیا، مصر و شام کے ساتھ اتحاد میں شریک ہوا، 1973ء میں مصر و لیبیا کے درمیان مکمل اتحاد قائم ہوااس کا مطالبہ خود قذافی کی طرف سے کیا گیا تھا۔
جمال عبدالناص کے بارے کرنل قذافی کے خیالات کا اظہار اس وقت ہوا،