۱۳۵۱ھ، ۱۹۳۲ء میں سید احمد الشریف نے مدینہ طیبہ میں وفات پائی۔ (۱)
۱۹۵۱ء میں لیبیا کو مکمل آزادی ملی اور سیدی محمد ادریس السنوسی ۱۹۵۲ء میں پہلے سربراہ مملکت منتخب ہوئے جو سید مہدی کے صاحبزادہ اور امام سنوسی کے چچا زاد بھائی تھے۔
سنوسی شیوخ کی روحانی تربیت اور دعوت و جہاد کے اثر سے لیبیا کے عوام پر دینی رجحانات کا غلبہ رہا اور ان کی دعوت کے نتیجہ میں ایسی مستحکم دینی بنیاد پڑ گئی جس کو کوئی قیادت آسانی سے توڑ نہین سکتی تھی، اور یہی سبب ہے کہ لیبیا کے عوام پٹرول کی دریافت کے باوجود مغرب کی صنعتی اور تمدنی زندگی کے گہرے اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رہے۔
۱۹۶۹ء میں لیبیا میں فوجی انقلاب ہوا، کرنل محمد قذافی نے جن کی عمر انقلاب کے وقت ۳۷ برس تھی، انقلابی کونسل کے صدر کی حیثیت سے ملک کی قیادت اپنے ہاتھ میں لی۔
کرنل قذافی نے اپنی انقلابی حکومت کی بنیاد عرب قومیت اور مغرب کی غلامی سے مکمل آزادی پر رکھی، برطانیہ اور امریکہ کے فوجی اڈوں کے معاہدے منسوخ کئے اور مغربی ممالک کے ماہرین کی جگہ عرب ملکوں کے ماہرین کا تقرر کیا، عربی زبان کی اشاعت اور ترقی کے لئے احکام جاری کئے، شراب پر پابندی لگائی اور بعض شرعی حدود کا نفاذ کیا۔
برطانیہ اور اٹلی کے عہد حکومت میں عیسائیوں کے جو اثرات لیبیا میں پھیل گئے تھے، کرنل قذافی نے ان کو دور کرنے کے لئے عیسائی مشنریوں پر پابندی لگائی، لیبیا کی فوجی طاقت کو ترقی دینے کے لئے اقدامات کئے اور فرانس اور روس سے فوجی معاہدے کئے، تعلیم کے عام کرنے کے لئے
------------------------------
۱۔ سنوسیوں بالخصوص سیدی احمد الشریف کے مجاہدانہ کارناموں اور ان کی دلآویز شخصیت سے تعارف حاصل کرنے کے لئے "خاضر العالم الاسلامی" (جلد دوم) میں امیر شکیب ارسلان کا مفصل مضمون "سید احمد و السنوسیۃ" (ص ۱۴۰ - ۱۶۵) نیز کتاب "السنوسیۃ دین و دولۃ" اس محمد فواد شکری کا مطالعہ کرنا چاہیے۔