کی جنگ میں روس نے ایسا موقف اختیار کیا جو شکست خوردہ عربوں کے بالکل خلاف توقع تھا، اور اس کے نتیجے میں ان عرب ممالک میں ناراضگی اور ناامیدی کی لر دوڑ گئی، جو اشتراکیت کی طرف خاصا میلان رکھتے تھے۔ اور روس کے خلوص اور دوستی پر ان کا عقیدہ متزلزل ہونے لگا، تو ایسے وقت میں صدر حواری بومدین نے عرب ممالک اور عرب قوم میں روس کے لیے نیا اعتماد پیدا کرنے میں خاصا اہم رول ادا کیا تھا، اور از سر نو تعلقات کو بحال کرنے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
اس طرح ایشیا اور افریقہ کے بعض ممالک پر جو "ترقی" اور اشتراکیت کے دائرہ میں نئے نئے داخل ہوئے تھے ، اسلامی شعائر کو بدلنے اور ان ممالک کو تیزی سے سیکولرازم اور اشتراکیت کی طرف لے جانے کا گویا اعصابی دورہ پڑااور اس سلسلے میں انہوں نے بعض اوقات بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی جمہوری حقوق کو بھی پامال کر دیا اور ان کے سربراہوں سے بعض دفعہ ایسی وحشت و بربریت سفاکی کا اظہار ہوا، جس کی نظیر آج کی مہذب دنیا میں ملنا مشکل ہے، چنانچہ جمہوریہ جنوبی یمن سے شعائر اسلامی کی بے حرمتی، علمائے دین کی توہین اور دین سے استخفاف کی ایسی خبریں آئیں جن سے ایک طفلانہ ذہنیت، جذبہ انتقام اور دین سے سخت بیزاری کا اظہار ہوتا ہے۔
اس طرح خبر رساں ایجنسیوں اور یورپی اخباروں نے یہ خبر نشر کی کہ علماء کی ایک جماعت (جس کی تعداد 10 تک تھی) صومال میں اس لیے زندہ جلا دی گئی کہ انہوں نے بعض سرکاری احکام کی مخالفت کی تھی، جو قرآنی نصوص اور اسلامی مسلمات سے ٹکراتے تھے، جیسے ترکہ میں مرد و زن کی مساوات اور عورتوں کو حق طلاق وغیرہ۔