وہ بیانات ہیں، جنھوں نے عالم اسلام میں ایک ہنگامہ پیدا کر دیا ہے، ایک بیان انہوں نے تیونس میں مارچ ۱۹۷۴ء میں منعقد ہونے والی عالمی ثقافتی کانفرنس کے مدرسین و مربین کے شعبے میں دیا تھا (جسے تیونسی اخبارات نے ان کے ان فقروں کو حذف کر کے شائع کیا تھا، جن میں اسلام اور ذات نبوی پر شدید حملے تھے) اور جنہیں سرکاری مجلات نے بھی حذف کر دیا تھا۔ لبنان سے نکلنے والے ہفتہ وار "الشہاب" نے ساتویں سال کے پہلے شمارے میں جو ۱۵ اپریل ۱۹۷۴ء میں نکلا تھا، یہ فقرے شائع کئے تھے:
(۱) قرآن میں تضاد ہے جسے عقل نہیں قبول کرتی جیسے وہ ایک جگہ کہتا ہے "قل لن یصیبنا الا ماکتب اللہ لنا" اور دوسری جگہ کہتا ہے "ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر و اما بانفسھم۔"(۱)
(۲) پیغمبر محمد ایک سادے انسان تھے، جو صحرائے عرب میں کثرت سے سفر کرتے رہتے اور رائج الوقت خرافات سنتے رہتے تھے، پھر انہوں نے خرافات کو قرآن میں نقل کر دیا، جیسے عصائے موسیٰ کا قصہ جسے پاسچر کی تحقیق کے بعد ماننے پر تیار نہیں اور جیسے اصحاب کہف کا قصہ۔ (۲)
------------------------------
۱۔ صدر موصوف نے جن آیتوں میں تضاد پایا ہے وہ یا تو عربی زبان سے ان کی ناواقفیت پر مبنی ہے (کیونکہ ان کی تعلیم فرانس میں ہوئی ہے) یا ان کے قرآن اور اس کی تفسیر کے عدم مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ اگر انہوں نے اسلامیات کے کسی معمولی عالم سے بھی رجوع کیا ہوتا تو وہ اس شبہ میں نہ پڑتے۔
۲۔ یہ الزام بھی صدر کی ناواقفیت یا اس فکری انتشار کی غمازی کرتے ہے جو ۱۹ویں صدی کے نصف اخیر کے تعلیم یافتہ طبقہ میں رہا ہے۔ جب علمی و تاریخی بحثوں نے بہت زیادہ فروغ نہیں پایا تھا، لیکن اب عصر جدید میں اس قسم کے دعاوی کو کوئی جواز نہیں اس لئے اس سے بہرحال یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صدر بورقیبہ قرآن کو نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی تالیف مانتے ہیں اسے آسمانی کتاب نہیں تسلیم کرتے۔