قرار دیا گیا، نکاح اب فریقین کی رضامندی سے ہوتا ہے، طلاق صرف عدالت کے ذریعہ ہوسکتی ہے، اور وہ بھی صرف ان تین صورتوں میں (ا) فریقین میں سے کوئی ان شرائط کی بنا پر طلاق کی درخواست دے جو کوڈ میں معین کر دی گئی ہیں، (ب) فریقین طلاق پر باہم رضامند ہوں (ج) صرف ایک فریق طلاق کی درخواست دے، اس صورت میں جج وہ رقم متعین کرے گا، جو ہرجانہ کے طور پر وہ فریق دوسرے کو ادا کرے گا، اس طرح نہ صرف یک زوجیت اور طلاق کے بارہ میں بیوی اصولی طور پر شوہر کی ہمسر بنا دی گئی بلکہ ضمنی طور پر ملکیت کے ان معاملات کے بارہ میں بھی جو نکاح کا نتیجہ ہوتے ہیں، یہ تو بعید از قیاس ہے کہ تونسی قانون کا مسودہ تیار کرنے والوں کو خدا بخش کے خیالات کا علم رہا ہوگا، تاہم اس میں شک نہیں کیا جا سکتا کہ تونسی کوڈ اسی طرح کے خیالات سے متاثر ہے، تونس کے ارباب حل و عقد کچھ بھی اعلان کریں، ان کا مذکورہ شخصی قانون، اگر معروضی طور پر دیکھا جائے روایتی اسلامی قانون سے اتنا ہی مختلف ہے جتنا ترکی کا سکولر سول کوڈ (دیوانی قانون (۱))۔"
تیونسی صدر کے اقدامات و بیانات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ثقافتی سفر (جو ان افکار کے ہمرنگ ہے، جن کی تلقین مغربی تہذیب کے داعی اور مسیحی مشنری اور مستشرقین کرتے رہتے ہیں) جاری رہے گا اور دور رس نتائج تک پہنچے گا۔ اب وہ اس مرحلے میں ہیں، جہاں اشاروں کنایوں کے حدود ختم ہو جاتے ہیں، چنانچہ اب انہوں نے بے خوف و خطر اپنے افکار کو ظاہر کرنا اور جسارت سے کام لینا شروع کر دیا ہے، اس بات کی شہادت ان کے
------------------------------
۱۔ مضمون پروفیسر شاخت (SCHACHT) بعنوان (PROBLEMS OF MODERN ISLAMIC LEGISLATION) ملخص ترجمہ از مولوی فضل الرحمٰن صاحب انصاری ایم اے ایل ایل بی (علیگ) شائع شدہ در رسالہ برہان دہلی دسمبر ۶۳ء۔